کاریں روشنی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی سے بنے ایندھن سے چلیں گی


الیکٹرک کاروں کو زیرو کاربن گاڑیوں کا مستقبل قرار دیا جاتا ہے لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ ماحول دوست کاریں آخر کار سورج کی روشنی پر چلنے کے قابل ہو جائیں گی۔

برطانوی جریدے نے نئی تحقیق شائع کی ہے۔محققین نے ایک مصنوعی پتہ تیار کیا ہے جو سورج کی روشنی کا استعمال کرتے ہوئے پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم اخراج والے ایندھن یعنی ایتھنول اور پروپینول میں تبدیل کر دیتا ہے۔

یہ مصنوعی پتے فوٹو سنتھیسز کی نقل کرتے ہیں۔ فوٹو سنتھیسز معروف عمل ہے جسے پودے اپنی توانائی پیدا کرنے میں استعمال کرتے ہیں، کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے لیبارٹری میں رد عمل کو متحرک کرنے اور سبز ایندھن پیدا کرنے کے لیے اس پر روشنی چمکانے سے پہلے پتے کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھرے پانی میں ڈبو دیا۔

اس حوالے سے مستقبل میں ایسی کاریں بنائی جا سکتی ہیں جن میں سورج کی روشنی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہوا سے پانی کے بخارات لے کر اس مصنوعی فوٹو سینتھیسز کے عمل سے چلتے پھرتے ایندھن پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جا سکتی ہے۔

ٹویوٹا کا سستی الیکٹرک کار لانچ کرنے کا اعلان

محقق ڈاکٹر مطیع الرحمن کا کہنا تھا کہ سورج کی روشنی سے مصنوعی پتوں کو چمکانا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی سے مائع ایندھن حاصل کرنا کیمسٹری کا ایک حیرت انگیز حصہ ہے،انہوں نے کہا کہ اس کام میں، ایک مصنوعی پودے کے پتے کا آلہ تیار کیا گیا تھا جو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی سے پولی کاربونیٹ الکوحل پیدا کرتا ہے اور سورج کی روشنی کو توانائی کے واحد ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

محققین نے مصنوعی پتے کو تانبے، شیشے، چاندی اور گریفائٹ سمیت متعدد تہوں سے بنایا ہے، مصنوعی پتے میں روشنی جذب کرنے والا حصہ ہوتا ہے جو سورج کی روشنی حاصل کرنے والے پودوں میں پائے جانے والے مالیکیولز کی طرح کا ہوتا ہے، یہ تانبے اور پیلیڈیم کے ساتھ مل کر کلوروفیل کی نقل کرتا ہے جو اصلی پودوں کے پتوں میں فوٹو سینتھیسز کا محرک ہے۔

ڈاکٹر رحمان نے کہا کہ الکحل کی مصنوعات کو رد عمل کے میڈیم سے نکالا جا سکتا ہے اور پھر گاڑی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ ٹیکنالوجی ابھی بھی لیبارٹری کی حدود میں ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ مصنوعی پتہ اس وقت کاروں میں استعمال ہونے والے فوسل فیول یعنی پیٹرولیم سے دور ہونے کی جانب اہم قدم ہے۔


متعلقہ خبریں