لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ختم کرنا پڑے گا، چیف جسٹس



اسلام آباد: چیف جسٹس گلزاراحمد نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے ہیں کہ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے(این ڈی ایم )کو تین بار حکم  دیا مگر مشینری درآمد سے متعلق کوئی دستاویزات جمع نہیں ہوئیں، لگتا ہے اس کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں، کیوں نا چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیں۔

معزز جج نے ریمارکس دیے کہ کیا این ڈی ایم اے کو ختم کرنے کےلیے وزیر اعظم کو سفارش کر دیں؟ چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیں۔

سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ الحفیظ کمپنی کس کی ہے ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا گیا۔

نمائندہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اے نے امپورٹ نہیں کی۔معزز جج نے ریمارکس دیے کہ این ڈی ایم اے نے مشینری درآمد نہیں کی مگر سہولت کاری کا تو کام کیا۔ ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا۔

چیف جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔ معزز جج کا کہنا تھا کہ چارٹرڈ طیارے کے لیے ایک کروڑ7 لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی۔ چارٹرڈ معاہدے کے مطابق ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ چارٹرڈ جہاز کرنے اور اس کی ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں؟دستاویزات کے مطابق مشینری کی قیمت ظاہر نہیں کی گئی۔

سپریم کورٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں اتنا کیش کوئی کیسے دے سکتا ہے؟ ویکسین اور ادویات کی امپورٹ کی دستاویزات کہاں ہیں؟ نقد ادائیگی اس کمپنی کو کی گئی جس کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ لگتا ہے چین میں پاکستانی سفارتخانے نے نقد ادائیگی کی ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہیہ کیا تماشہ چل رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ حکام کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شاید بہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جار ہی ہے، عدالت کسی کو ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں پہنچنے دے گے۔ ملک کے اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے۔ صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانا پڑے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کورونا سے نمٹنےکےلیےاین ڈی ایم اے کو فری ہینڈ اور بھاری فنڈز دیئے گئے، این ڈی ایم اے عدالت اور عوام کو جوابدہ ہے۔ کورونا، سیلاب، ٹڈی دل اور سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپا گیا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے لیے جہاز اور مشینری منگوا رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اربوں روپے کیسے خرچ کیے جا رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی در آمد کی اجازت کیسے دی؟ کس اسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں؟ بھارت سے آنے والی ادویات کون سی تھیں؟ بھارت سے آنے والی ادویات غیر قانونی تھی اور اس کی حیثیت کیا تھی؟

چیئرمین ڈریپ نے عدالت میں بتایا کہ ایمر جنسی میں ادویات اور مشینری در آمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں،
بھارت سے آنے والی ادویات کی امپورٹ پر پابندی لگی تھی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں اعتراف کیا کہ کابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی لیکن امپورٹ بہت زیادہ ہوئیں، شہزاد اکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائیں گے۔ عدالت نےایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت 2ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔


متعلقہ خبریں