اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل سے متعلق حکومت سے واضح مؤقف طلب کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے ممکنہ ملٹری حراست و ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ملٹری حراست میں دینے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع کے پاس آج دن تک ملٹری حراست و ٹرائل کی کوئی اطلاع نہیں۔
ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی درخواست قبل از وقت ہے؟ آپ کی درخواست پر میں نے نوٹس جاری نہیں کیا بلکہ بیان طلب کیا تھا، اگر جواب آتا کہ ہاں ملٹری ٹرائل ہونے جا رہا ہے تو پھر بات آگے بڑھتی، آج کے دور میں الفاظ کی جنگ ہوتی ہے، عدالت آپ کی بےچینی سمجھتی ہے ، ہماری حدود کو بھی سمجھیں، میرے پاس اس کیس میں آگے بڑھنے کیلئے کچھ نہیں۔
فوجی تحویل میں دینے سے روکا جائے ، عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست
وزارت دفاع کے نمائندے نے بتایا کہ میں نے فیلڈ جنرل کورٹ میں 50 سے زائد کیسز کیے ہیں، جس پر عدالت نے پوچھا آپ کیسے سویلینز کوملٹری کورٹس میں لے جاتے ہیں؟ نمائندے نے بتایا کہ متعلقہ مجسٹریٹ کو ملٹری اتھارٹی آگاہ کرتی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے استفسار کیا سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا طریقہ کار کیا ہے؟ مجھے اس حوالے سے طریقہ کار فراہم کر دیں، عدالت کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل سے متعلق واضح جواب نہیں دیا جا رہا۔ نمائندہ وزارتِ دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ ایک سپیشل قانون ہے، سیکشن 2 ون ڈی کے تحت سویلین کا بھی ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔
نیب ترامیم فیصلہ ، عمران خان نے 190 ملین پائونڈز کیس میں بریت کی درخواست کر دی
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ نیب کے قانون کو سپریم کورٹ نے ڈریکونین قرار دیا لیکن اس میں بھی طریقہ کار موجود ہے، طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے سول عدالت چارج فریم کرے گی، ٹرائل کورٹ اگر کہے کہ کیس ملٹری کورٹ کو بھیجنا ہے تو نوٹس دے کر بھیجا جا سکتا ہے۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کا بیان واضح نہیں، آئندہ سماعت پر واضح مؤقف کے ساتھ آئیں۔ جس پر وزارت دفاع نے مؤقف دینے کے لیے وقت مانگ لیا ، بعد ازاں عدالت نے سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی۔