ہانگ کانگ میں چینی عہدیداروں پر حالیہ امریکی پابندیوں کے جواب میں چین نے متعدد امریکی عہدہ داروں اور اداروں پر جوابی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔
چینی پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں سابق امریکی کامرس سکریٹری ولبر راس بھی شامل ہیں۔
چین کی جانب سے جوابی پابندیاں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب امریکی نائب سکریٹری برائے خارجہ وینڈی شرمین چند روز میں چین کے دورے پرجارہے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے ہانگ کانگ میں چینی عہدیداروں پر پابندیاں عام شہریوں پر سیکیورٹی حکام کی جانب سے کریک ڈاؤن کے باعث لگائی گئی تھیں۔
واشنگٹن نے اپنے کاروباری افراد کو ہانگ کانگ میں کام کرنے سے متعلق بڑھتے ہوئے خطرات سے بھی خبردار کیا تھا۔
چین کی وزارت خارجہ نے جمعہ کے روز کہا کہ حالیہ امریکی پابندیوں کا مقصد ہانگ کانگ کے کاروباری ماحول کو خراب کرنا تھا۔ ایسی پابندیاں بین الاقوامی تعلقات اور ان کو چلانے والے بنیادی اصولوں کی شدید خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے مطابق سابق امریکی کامرس سکریٹری ولبر راس سمیت سات امریکیوں اور اداروں پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: چین امریکہ تجارتی جنگ، گوگل نے ہواوے کو ہری جھنڈی دکھا دی
خیال رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ماتحت بطور کامرس سیکرٹری راس نے متعدد چینی کمپنیوں بشمول ہواوے اور زیڈ ٹی ایل پر پیشگی لائسنس کے بغیر امریکی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کرنے پر پابندی لگائی تھی۔
چین کی جانب سے پابندی کی زد میں آنے والے دیگر افراد میں ہیومن رائٹس واچ کے چین کے ڈائریکٹر سوفیہ رچرڈسن، امریکی چین اقتصادی اور سلامتی سے متعلق جائزہ کمیشن کے صدر کیرولن بارتھلمیو اور انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے ایڈم کنگ شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جین ساکی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین کی جوابی کارروائی سے امریکہ “خائف نہیں ہوگا”۔
انہوں نے کہا کہ چین کی یہ حرکتیں اس بات کی تازہ ترین مثالیں ہیں کہ بیجنگ کیسے نجی شہریوں، کمپنیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتا ہے۔