مالی سال21 -2020 میں آمدن کم اور اخراجات زیادہ رہنے کا امکان، 3ہزار437ارب خسارے کا بجٹ پیش

  • ایف بی آر کو چار ہزار 963 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے
  • آئندہ مالی سال دفاع کے لیے 12 کھرب 89 ارب روپے رکھے گئے ہیں
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ


اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مالی سال21-2020 کے لیے 7ہزار706ارب کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔

مالی سال21-2020 کا بجٹ وزیرصنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ حکومت نے 5ہزار483ارب روپے مقامی ذرائع اور 2ہزار222 ارب روپے بیرونی ذرائع سے حاصل کرنےکا تخمینہ لگایا ہے۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے مقابلے میں کم رکھا گیا ہے۔ مالی سال -21-2020 کے بجٹ کا حجم مالی سال20-2019 کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ

آئندہ مالی سال دفاع کیلئے 12 کھرب 89 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال سود اور قرضوں پر 2946 ارب روپے خرچ کیےجائیں گے۔ آئندہ مالی سال میں 2 ہزار 2 سو 23 ارب روپے کے غیر ملکی قرضے حا صل کیے جائیں گے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 4 ارب 45 کروڑ ڈالر۔ تجارتی خسارے کا ہدف 19 ارب 70 کروڑ ڈالر۔ ملکی برآمدات کا ہدف 22.71 ارب ڈالر اور درآمدات کا ہدف 42.41ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔

ایف بی آر کو چار ہزار 963 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کا خسارہ 7 فیصد کے لگ بھگ ہو گا۔ آئندہ مالی سال غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر 1413 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ آئندہ مالی سال نجکاری کے زریعے 100 ارب روپے حاصل کیے جائیں گے۔

مجموعی طورپر875ارب روپےکی رقم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی ہے جب کہ بجٹ خسارہ 3ہزار437ارب ہے۔

ترسیلات زربڑھانے کیلئے25ارب، پاکستان ریلوےکیلئے40ارب، کامیاب نوجوان پروگرام کیلئے2ارب، ای گورننس سسٹم میں بہتری کیلئےایک ارب روپے سے زائدرقم مختص کی گئی ہے۔

فنکاروں کی فلاح وبہبودکی رقم 25سےبڑھاکرایک ارب کردیا ہے

زرعی شعبےکیلئے10ارب رکھے ہیں جو پہلےرکھےگئے50ارب کےعلاوہ ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے64ارب ترقیاتی بجٹ کاحجم1324ارب، پی ایس ڈی پی کی مدمیں650ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک آئی ایم ایف بجٹ مذاکرات: وفاقی حکومت کا بجٹ اور اخراجات منجمد کرنے پر اتفاق

طبی آلات کی خریداری کےلیے71ارب روپے،غریب خاندانوں کےلیے150ارب، ایمرجنسی فنڈکےلیے100ارب مختص کیےہیں۔ آزادجموں کشمیرکےلیے55ارب، گلگت بلتستان کےلیے32ارب، کےپی کےمیں ضم اضلاع کےلیے56ارب، سندھ کےلیے19ارب اور بلوچستان کےلیے10ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔ سی پیک کےتحت منصوبوں کیلئے118ارب رکھے ہیں۔

تحفظ خوراک کیلئے 12ارب روپے رکھے گئے ہیں اور حکومت نے شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔

حکومت نے دو لاکھ روپے سالانہ سے زائد کمانے والے تعلیمی اداروں پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے۔  ٹول بنانے والی صنعتوں پر ٹیکس میں کمی کرنے کی تجویز دی ہے۔ آئندہ مالی سال وفاقی وزارتوں کا بجٹ 476 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال وفاق 209 ارب روپے کی سبسڈیز دے گا۔

وفاق کا ترقیاتی بجٹ 792 ارب روپے ہو گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کا ہدف
21.53ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران 3933 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔

آئندہ مالی سال کیلیے اقتصادی ترقی کا ہدف 2.1فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ زرعی پیداوار کا ہدف 2.8فیصد، صنعت کا 0.1فیصد اور سروس سیکٹر کا ہدف 2.6فیصد مقررکیا گیا ہے۔

اہم فصلوں کا پیداواری ہدف 1.9فیصد، چھوٹی فصلوں کا ہدف 1.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ کاٹن کا پیداواری ہدف 0.9فیصد اور لائیو سٹاک کا ہدف 3.5فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

فارسٹری کا پیداواری ہدف 2.1فیصد، ماہی گیری کا ہدف 1.5فیصد مینوفیکچرنگ سیکٹرکا ہدف منفی 0.7فیصد اور ایل ایس ایم کا ہدف منفی 2.5فیصد ہدف مقرر کیا ہے۔

چھوٹی صنعتوں کا پیداواری ہدف 6فیصد، سلاٹرنگ کا ہدف 3.3فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ تعمیراتی شعبے کا ہدف 1.4فیصد، بجلی کی پیداوار اور گیس کی تقسیم کا ہدف3.5فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

سروس سیکٹر میں ہول سیل اینڈ ری ٹیلرز کا ہدف 1.1فیصد مقرر کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ، سٹوریج، کمیونیکیشن کا ہدف 0.9فیصد، فنانس اینڈ انشورنس کا ہدف 3فیصد مقرر ہے۔ ہاؤسنگ سروسز 4 فیصد، گورنمنٹ سروسز 4.6فیصد، متفرق نجی شعبے کا ہدف 4.2فیصد مقرر ہے۔

آئندہ مالی سال مہنگائی کو ہدف 6.5فیصد  تک لانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران قومی بچت سکیموں کا ہدف 13.8فیصد مقرر کرنے کی تجویز۔جی ڈی پی میں مجموعی سرمایہ کاری کا تناسب 15.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

 61 آئٹمز پر کسٹمز ڈیوٹی ختم

حکومت نے بجٹ21-2020 میں وزیراعظم ریلیف فنڈ کے تحت خوردنی تیل اور آئل سیڈ پر 2 فیصد اے سی ڈی ختم کردی ہے۔ کورونا اور کینسر کی تشخیصی کٹس، جان بچانے والی دوا مگلمائن انٹی مونیٹی، ریڈی ٹو یوز سپلیمنٹری فوڈ پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ فاٹا میں نئی صنعتوں کیلئے درآمدات پر 2023ء تک کسٹمز ڈیوٹی ختم سے استثنی دیا گیا ہے۔

 کسٹمز ڈیوٹی میں کمی

حکومت نے مختلف صنعتوں کے 40 خام میٹیرل پر ڈیوٹی میں کمی کی ہے۔ نیشنل ٹیرف پالیسی کے تحت 90 ٹیرف لائنز پر کسٹمز ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 3 اور صفر فیصد کردی ہے۔

ریٹیلرز کیلئے سی این آئی سی کی خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کرنے کی تجویز۔ کورونا سے متعلقہ صحت عامہ کی اشیا پر سیلز ٹیکس چھوٹ میں تین ماہ کی توسیع کی گئی ہے۔

سگار، چروٹس، سگی رولز اور سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑگا کر 100 فیصد کرنے کی تجویز۔ الیکٹرک سگریٹ کے ای لیکوئیفائیڈ پر 10 روپے فی ملی لیٹر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔

کیفی نیٹڈ انرجی ڈرنک پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔ مقامی تیار ڈبل کیبن پر 7.5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔ درآمدی ڈبل کیبن پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔

سیمنٹ کورونا کے باعث سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2 روپے فی کلو سے کم کرکے 1 روپیہ 75 پیسے کردی گئی۔  باہر سے پوٹاشیم منگوانے پرٹیکس میں10 روپے فی اضافہ کردیا گیا ہے۔

احساس پروگرام کیلئے208 ارب رکھے گئے ہیں

نیاپاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کیلئے30 ارب روپے اور  اخوت فاؤنڈیشن اسکیم کی قرضہ حسنہ اسکیم کے ذریعے کم لاگت رہائشی مکانا کی تعمیر کیلئے ڈیڑھ ارب رکھے گئے ہیں۔

بیرون ملک نے رقوم کی منتقلی بینکوں کے ذریعے بڑھانے کیلئے25 ارب، لاہور اور کراچی میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام اسپتالوں کیلئے 13 ارب رکھے ہیں۔

پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کیلئے دس کروڑ، ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن کیلئے40 کروڑ اور پاکستان انو ویشن فنڈ کیلئے دس کروڑ رکھے گئےہیں۔ توانائی، خوارک اور دیگر شعبوں کو سبسیڈیز دینے کیلئے179 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
زراعت کیلئے10 ارب، وفاقی اور صوبائی حکومتوں  کے مجموعی ترقیاتی اخراجات کا حجم1324 ارب رکھا گیا ہے۔

کورونا اور دیگر آفات سے نمٹنے کیلئے 70ارب، توانائی اور بجلی کیلئے80 ارب اور آبی وسائل کی بہتری کیلئے69 ارب رکھے گئے ہیں

قومی شاہراہوں اور ریلوے کیلئے118 ارب، صحت کیلے20 ارب، تعلیم کیلئے 30 ارب روپے، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کیلئے20 ارب، موسمیاتی تبدیلی کیلئے چھ ارب، گلگت بلتستان میں منصوبوں کیلئے چالیس ارب، کے پی کے ضم شدہ علاقوں میں منصوبوں کیلئے48 ارب رکھے گئے ہیں۔


متعلقہ خبریں