سندھ ہائیکورٹ نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے اور ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کردیے۔ سندھ ہائیکورٹ میں آغا سراج دورانی کی گرفتاری غیر قانونی قرار دینے اور ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی ۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر نیب سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 24 اپریل تک ملتوی کردی۔
آغاسراج درانی نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ انکی گرفتاری کا طریقہ کار قانون کے برخلاف تھا،مجھے سیاسی انتقام کی خاطر گرفتار کیا گیا،گھر پر چھاپے کے دوران خواتین سے بدتمیزی کی گئی، نیب اب تک میرے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
آغا سراج درانی نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ انکی گرفتاری کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دیا جائےاورانکےخلاف انکوائری کو ختم کرکےاور ضمانت پر رہا کیا جائے۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی کراچی کی احتساب عدالت میں پیشی
ادھر دوسری طرف اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو کراچی کی احتساب عدالت میں منتظم جج کے سامنے پیش کردیا گیا۔
نیب کے تفیشی افسر اور پراسیکیوٹر زاہد بالادی بھی عدالت میں پیش ہوگئے ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ دو ملزمان جو ضمانت پر تھے انہیں ملزم کے سامنے پیش کیا تھا ،ملزم نے دونوں افراد کو پہنچانے سے انکار کیا ہے۔گلزار احمد اورملزم کے پی ایس نے بھی حفاظتی ضمانت کرالی ہے۔ ایک گواہ کا 164 کا بیان ریکارڈ کرانا ہے آغا سراج کا وہاں ہونا ضروری ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آغا سراج درانی تفتیش میں تعاون نہیں کررہے ہیں ۔ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں مزید توسیع کی جائے ہوسکتا ہے یہ آخری دفعہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع ہو۔
آغا سراج درانی نےکہا عدالت نے گذشتہ سماعت پر ریکارڈ کے حوالے سے کہا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔
عدالت نے نیب کے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ کیا کوئی نئی چیز سامنے آئی ؟
ملزم کے وکیل نے کہا نیب والے عجیب و غریب باتیں کررہے ہیں۔ملزم کو اٹھارہ تاریخ کو جو کال اپ نوٹس جاری کیا تھا وہ دکھائیں ۔تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر نیب کے کال اپ نوٹس سے لاعلم ہیں۔ پچیس تاریخ کو بلوایا ہے اور بیس تاریخ کو گرفتار کرلیا گیا ۔
عدالت نے پھر استفسار کیا کیا اس کیس میں کوئی نئی چیز ٹریس آوٹ ہوئی ہے؟
نیب کے تفتیشی افسر نے کہا ذوالفقار ڈاہر ہے جس پراپرٹی میں رہائش پذیر ہیں وہ کسی عرفان کے نام پر ہے اسکو تلاش کرنا ہے۔ پی ایس ذوالفقار ڈاہر کو جو تمام مالی معاملات دیکھ رہا تھا اسکا بیان لینا ہے۔
ملزم کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے۔ ہائی کورٹ کی آبزرویشن ہے کہ یہ نا اہل تفتیشی افسر ہیں ۔ہر ریمانڈ کے بعد دو چار نئے لوگوں کو نوٹس جاری کردیتے ہیں۔قانون کے مطابق پہلے انوسٹی گیشن ہونی چاہیے جو بعد میں ہورہی ہے۔ملزم کے گھر کی ویڈیو اور دیگر چیزیں کس نے دی ہیں؟اس طرح لوگوں کی عزت آزادی چھینی جائے تو ہم کس طرف جارہے ہیں ۔یہ نیب والے سوسائٹی کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔ نیب والے جیسا کررہے ہیں کسی قبائلی علاقے میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ نیب نے گذشتہ سماعت پرمزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے لکھ دیا تھا۔
نیب کے وکیل نے کہا قانون ہمیں نوے دن کے ریمانڈ کی اجازات دے دیتا ہے۔ اس پر سراج درانی کے وکیل نے کہا تو ایک ہی دفعہ ریمانڈ لے لیں۔
نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری انوسٹی گیشن میں تبدیل کردی گئی ہے جلد انوسٹی گیشن مکمل کرلیں گے ۔
عدالت نے آغا سراج درانی کو 26 اپریل تک کے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
یہ بھی پڑھیے:نیب نے سراج درانی کے بنک لاکرز توڑ دیے، کروڑوں روپے برآمد
کمرہ عدالت میں ڈاکٹر عاصم اور پیر مظہر الحق کی آغا سراج درانی سے ملاقات بھی ہوئی ۔ ڈاکٹر عاصم نے آغا سراج درانی سے خیریت دریافت کی۔تینوں رہنماوں کی کمرہ عدالت میں گفتگو جاری رہی۔
عدالت میں پیشی سے قبل اسپیکر آغا سراج درانی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا مجھے ڈیڑھ ماہ ہوا ہے نیب کی تحویل میں ،زیادہ وہی بتا سکتے ہیں کہ انہونے اب تک کیا حاصل کیا؟
ایک صحافی نے پوچھا کیا نئے سوال پوچھے یا وہی پرانے سوال پوچھ رہے ہیں؟ اس پر آغا سراج درانی نے کہا آپ بھی آیا کریں وہاں، بیٹھ کر جواب دینگے۔مجھے عدالتوں پر بھروسہ ہے، انصاف کی امید ہے۔