آسیہ مسیح نقل و حرکت میں آزاد ہیں، دفتر خارجہ

کرتار پور راہدری، معاہدے کے لئے پاکستانی وفد 14مارچ کو بھارت روانہ ہو گا

فائل فوٹو۔–


اسلام آباد: پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ آسیہ مسیح عدالتی فیصلے کے بعد ایک آزاد شہری ہیں اورانہیں اپنی نقل و حرکت کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ آسیہ مسیح اندرون یا بیرون ملک جہاں چاہیں جاسکتی ہیں۔ ترجمان نے واضح کیا کہ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

انتہائی ذمہ دارذرائع نے اس ضمن میں ہم نیوز کو بتایا کہ آسیہ مسیح ابھی تک پاکستان میں ہیں اور وہ بیرون ملک نہیں گئیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے آسیہ مسیح کی توہین مذہب کے مقدمہ میں بریت اور رہائی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ محض جھوٹے بیانات کی بنیاد پر کسی کو پھانسی نہیں چڑھایا جا سکتا ہے۔

مدعی مقدمہ قاری سالم کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے 31 اکتوبر 2018 کو دیے گئے فیصلے میں ان حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کی بنیاد پر ماتحت عدالتوں نے آسیہ مسیح کو توہین رسالتﷺ کے مقدمہ میں موت کی سزا سنائی تھی۔

بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بارے میں کسی خامی کی نشاندی کرنے سے قاصر رہے جس کے تحت عدالت اپنے کیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ توہین مذہب کا معاملہ نہ ہوتا تو عدالت جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج کرتی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح کیا کہ قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی ایسی مقدمے میں جہاں کسی شخص کو سزائے موت دی گئی ہو لیکن گواہان کے بیانات جھوٹے ہوں تو عدالت ان گواہان کا سمری ٹرائل کر کے انھیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے۔

عدالت کی جانب سے  کہا گیا کہ گواہان کے اپنے بیانات میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔


متعلقہ خبریں