سپریم کورٹ، بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس کا تحریری فیصلہ جاری

Supreme Court

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ 13 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔ جس میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے گمراہ کن درخواستیں دائر کیں جو مسترد کی جاتی ہیں۔ عدالتی وقت ضائع کرنے پر بحریہ ٹاؤن کو10 لاکھ روپے جرمانہ کر دیا گیا اور اس جرمانے کی رقم سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کو دی جائے۔

فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن سروے پر خرچ ہونے والے 10 لاکھ روپے بھی سندھ حکومت کو ادا کرے اور بحریہ ٹاؤن کی درخواستوں کے علاوہ دیگر تمام درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔ بظاہر بیرون ملک سے بھیجی گئی رقم بحریہ ٹاؤن کے واجبات ادا کرنے کے لیے استعمال کی گئی اور سپریم کورٹ میں جمع رقم سے”پیٹر سے لوٹ کر پال کو دینے”کی اصطلاح ذہن میں آتی ہے۔

بیرون ملک سے موصول رقم اور اس پر ہونے والا منافع حکومت پاکستان کو دیا جائے اور بحریہ ٹاؤن عدالت کے ساتھ رضامندی سے ہوئے معاہدے کو پورا نہ کرنے پر ڈیفالٹ میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں معاہدے کے مطابق قسطیں ایک عرصے سے جمع نہیں کرائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر سپریم کورٹ بار کے نان فائلر ممبران کو رجسٹر کرے گا

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ بحریہ ٹاؤن کی جمع رقم رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ رقم سندھ کے لوگوں کی ہے اور حکومت سندھ کو بھجوائی جائے جبکہ سپریم کورٹ کے نام پر قائم اکاؤنٹ بھی بند کیا جائے۔

نیشنل بینک اکاؤنٹ بند کرنے کے بعد صدر نیشنل بینک کی دستخط شدہ دستاویز جمع کرائے۔ بیرون ملک سے رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں 35 ارب روپے بھیجے گئے جبکہ 35 ارب روپے مبشرہ علی اور بینا ریاض سمیت دیگر کی جانب سے بھیجے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان واقعے کی رپورٹ تیار، قتل کا مرکزی ملزم گرفتار

عدالت نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی رقم کی تفصیلات کے لیے متعلقہ شخصیات و حکام کو نوٹس جاری کیا گیا تاہم مشرق بینک کے علاوہ کسی فریق نے بیرون ملک سے آنے والی رقم کے بارے میں جواب نہیں دیا۔ مشرق بینک کے مطابق مبشرہ علی ملک نے رقم رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بھیجنے کا کہا تاہم بدقسمتی سے سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر رقم رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں بھیج دی گئی۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ سپریم کورٹ غیر ضروری طور پر این سی اے کی جانب سے پکڑی گئی رقم میں ملوث ہوئی اور این سی اے کی ضبط کردہ رقم غالبا مجرمانہ سرگرمیوں کی آمدن تھی۔


متعلقہ خبریں