آرمی ایکٹ ، گرفتار حاضر سروس بریگیڈیئر کی رہائی کی درخواست مسترد

lahore high court

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے حاضر سروس بریگیڈیئر کی رہائی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کسی ایسے شخص کے حوالے سے حکم جاری نہیں کر سکتی جو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ہو۔

ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کوئٹہ میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز بریگیڈئیر سبحان اختر کو جون میں کوئٹہ سے کرپشن کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے بریگیڈیئر کی اہلیہ عمیرہ سلیم کی جانب سے گرفتاری کیخلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی سماعت کے دوران وزارت دفاع نے تسلیم کیا ہے کہ بریگیڈئیر سبحان اختر فوج کی تحویل میں ہیں۔ اس لیے یہ حبس بیجا میں رکھنے کا کیس نہیں بنتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت حبس بیجا کی درخواست صرف اس وقت دیکھ سکتی ہے جب کسی کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہو۔

لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

فوجی حکام کی جانب سے تحریری جواب میں کہا گیا کہ افسر کو سنگین الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے اور اس سے قانون کے مطابق نمٹا جا رہا ہے۔

جج نے کہا کہ درخواست گزار کی واحد شکایت یہ ہے کہ اس کے شوہر کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے، اور انہیں اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت بھی نہیں۔

درخواست گزارکے وکیل کرنل انعام الرحیم نے اعتراف کیا کہ ان کے شوہر حاضر سروس فوجی افسر ہیں ، لہٰذا وہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تابع ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار کے شوہر کو پی اے اے کی دفعہ 73 کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور فوجی حکام پی اے اے کی دفعہ 2 (1) (اے) کے تحت تفتیش کر رہے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل صدیق اعوان نے آئین کے آرٹیکل 199 (3) اور 8 (3) کے مطابق درخواست کے  قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا۔ صدیق اعوان اور جی ایچ کیو کے لاء ڈائریکٹوریٹ کے لیفٹیننٹ کرنل حیدر سلطان کی جانب سے وزارت دفاع کے جواب جمع میں کہا گیا ہے کہ درخواست قابل سماعت نہیں کیونکہ حاضر سروس بریگیڈیئر فوجی حکام کی قانونی تحویل میں ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ پرویز الہیٰ کو پیش نہ کرنے پر برہم ، چیف کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس

وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار کو اپنے گرفتار شوہر سے ملنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ عدالت کے  تصدیق کرنے پر درخواست گزار کے وکیل نے بھی کنفرم کیا کہ درخواست گزار کو ایک دن پہلے ہی شوہر سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔

عدالت نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 199 (3) واضح طور پر ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کو اس درخواست میں شامل معاملات کو حل کرنے کے دائرہ اختیار کو روکتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کر دی۔

 

 


متعلقہ خبریں