پورے ملک میں بجلی کے بھاری بلوں نے عوام کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ عوام کی جانب سے فری بجلی بند کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب واپڈا اور وزارت آبی وسائل نے فری یونٹس کی سہولت ختم کر نے کی مخالفت کر دی ہے۔ وزارت آبائی وسائل کا موقف ہے کہ فری یونٹس ختم کرنے سے کوئی بچت نہیں ہو گی۔
اس پر نجی ٹی وی پروگرام میں معاشی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یونٹس کی تعداد ساڑھے تین سو ملین بنتی ہے جن کی ٹوٹل قیمت ساڑھے سولہ ارب روپے تقریباً بنتی ہے جو عوام استعمال کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کے ساتھ سرکاری ملازمین، سیاستدان اور حکومت کھڑی ہو گی تو عوام کو بھی حوصلے رہے گا کہ اگر بجلی مہنگی پڑ رہی ہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر ایک جانب فری یونٹس دیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب بجلی بھی عوام کو نہیں مل رہی اور زیادہ بل بھیجے جا رہے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔
بجلی بل، ملک بھر میں شٹر ڈاؤن، احتجاجی مظاہرے، بلوں کو آگ لگا دی گئی
تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اگر عوام کو سستی بجلی نہیں مل رہی تو مفت یونٹس استعمال کرنے والے خود اگر اس دستبردار ہو جاتے ہیں تو اس سے عوام کو اچھا پیغام جائے گا، اس سے عوام کے درد کو کچھ حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔
نگران حکومت کے پاس کیا اختیارات ہیں وہ بجلی کے بلوں کے حوالے سے کیا کر سکتی ہے، جس کے جواب میں تجزیہ کار نے کہاکہ نگران حکومت کے پاس محدود اختیارات ہیں، ہمیں اس کے حل کی طرف جانا ہے، بلوں کو ایکسٹینڈ کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ریٹائرڈ حاضر سروس ملازمین کو ماہانہ تین کروڑ 47 لاکھ 58 ہزار 825 فری یونٹس دیے جا رہے ہیں۔
سرکاری افسران کو مفت بجلی کے یونٹ دینے کا اقدام پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج
دوسری جانب پاکستان کا پاور سیکٹر کپیسٹی چارجز میں پھنس گیا۔ رواں مالی سال کے دوران کپیسٹی چارجز مختص ترقیاتی بجٹ سے بھی دگنا زیادہ ہوگئے۔ دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے دوران کپیسٹی چارجز 2010ارب روپے کا تخمینہ ہے جبکہ 10 سالوں میں سالوں میں بجلی گھر کپیسٹی چارجز کی مد میں 8344ارب روپے ہڑپ کرگئے۔
معاہدے کے تحت نجی بجلی گھروں کو اصل پیداوار کے برعکس پیداواری صلاحیت کے تحت ادائیگی کی جاتی ہے، مجموعی بجلی پیداواری لاگت 848ارب روپے تھی جس میں 185ارب روپے کپیسٹی چارجز تھے۔ دستاویزات کے مطابق 2022،23 میں میں مجموعی پیداواری لاگت 2572ارب میں سے کپیسٹی چارجز 1321ارب روپے تھے۔