کراچی میں خود کش دھماکے میں ہلاک ہونے والے چینی اساتذہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ وہ اساتذہ کم اور دوست زیادہ تھے، ایک ساتھ کھاتے پیتے، ایک دوسرے کے کھانے پکاتے تھے۔ عید ملن پارٹی کا اہتمام کررکھا تھا مگر موقع نہیں ملا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر ہوانگ گیپنگ نے منگل کو کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خود کش دھماکے سے چند دن قبل ہی دوبارہ بحیثیت ڈائریکٹر اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ پروفیسر ہوانگ گیپنگ کا شمار کراچی یونیورسٹی کے چینی زبان کے مرکز یعنی کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے بانی استادوں اور ڈائریکٹر میں ہوتا تھا،انہوں نے سنہ 2013 میں اس ادارے کا آغاز کیا تھا۔ کچھ عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ واپس چین چلے گئے تھے۔
رانا جاوید نے بی بی سی کے ساتھ اپنی کچھ یادیں تازہ کیں، ان کا شمار کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ابتدائی طالب علموں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سنہ 2013 میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ سے چینی زبان کا کورس کیا تھا۔
رانا جاوید کہتے ہیں کہ اس کورس کے دوران وہ تقریباً ایک سال تک پروفیسر ہوانگ گیپنگ سے رابطے میں رہے، وہ انتہائی شفیق اور زبردست شخصیت کے مالک تھے۔ ایک نئے انسٹیٹیوٹ کو چلانا بہرحال ایک چلینج ہوتا ہے۔ پروفیسر ہوانگ کیپنگ اس چلینج پر نہ صرف پورے اترے بلکہ انھوں نے اس کو ایک شاندار ادارہ بنایا تھا۔
واضح رہے کہ پروفیسر ہوانگ گیپنگ منگل کے روز کراچی یونیورسٹی کی حدود میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں دیگر دو چینی اساتذہ ڈنگ میوپنگ اور چن سائی کے ہمراہ موقع پر ہلاک ہوئے گئے تھے۔ دہشت گردی کے اس حملے میں پاکستانی ڈرائیور خالد سمیت مجموعی طور پر چار افراد ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے۔
ان زخمیوں میں سے ایک اور چینی استاد وانگ یو پلیز اور پاکستانی محافظ حمید گل شامل ہیں۔
چین کے یہ استاد کراچی یونیورسٹی اور چین کی سیچوان نارمل یونیورسٹی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت چینی زبان کی تعلیم دینے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں موجود تھے۔ سیچوان نارمل یونیورسٹی نے یہ منصوبہ چین کی حکومت کے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت دیا ہے۔
جس میں سیچوان نارمل یونیورسٹی نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ سنٹر قائم کیے ہیں۔ جہاں پر پاکستانی طالب علموں کو مختصر اور لمبے دورانیہ کے چینی زبان کے کورسز کروائے جاتے ہیں۔
رانا جاوید کہتے ہیں کہ پروفیسر ہوانگ کیپنگ کے ہاتھوں کئی پاکستانیوں نے چینی زبان میں عبور حاصل کیا اور وہ اس وقت باعزت روزگار کما رہے ہیں۔
پروفیسر ہوانگ کیپنگ اپنے شاگردوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے۔انھوں نے پورے ادارے کا ماحول مکمل طور پر دوستانہ بنا رکھا تھا۔ وہ ہر ایک طالب علم کو اس کے نام سے جانتے تھے۔ ہر ایک سے بات کرتے تھے۔ ہر ایک کا حال احوال پوچھتے تھے۔
رانا جاوید کے مطابق پروفیسر ہوانگ طالب علموں سے زیادہ سے زیادہ چینی زبان میں بات کرتے تھے۔ اس طرح ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ طالب علم جلد ازجلد چینی زبان پر عبور حاصل کریں۔ اس کے لیے وہ سختی نہیں کرتے تھے بلکہ گپ شپ کے ماحول میں کوئی موضوع چنتے اور اس پر بات چیت شروع ہو جاتی تھی۔
رانا جاوید کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہمیں چینی حروف تہجی سکھانے کے لیے تصاویر کا سہارا لیا تھا۔ وہ روایتی طور پر صرف لیکچر نہیں دیتے تھے بلکہ وہ مختلف طریقے استعمال کرکے عملی تربیت کے مواقع فراہم کرتے تھے اور اس کے لیے اکثر اوقات وہ چھوٹی موٹی پارٹی رکھتے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے طالب علم محب اللہ کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے دیگر ساتھی طالب علم چینی لیکچرار چن سائی کے طالب علم ہیں۔
وہ شاندار شخصیت کی مالک اور محبت کرنے والی استاد تھی اور ان کی ہلاکت پر ہم سب سکتے کی کیفیت میں ہیں.
محب اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے تمام چینی اساتذہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ وہ تمام تھے تو ہمارے استاد لیکن ان سے دوستی تھی، ہم لوگ کلاس کے بعد بھی ملتے تھے۔ یہ مواقع چینی اساتذہ خصوصاً چن سائی مہیا کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں کے لیے مختلف تقریبات یا پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا۔ جس میں ہم لوگ پاکستانی کھانے پکاتے اور وہ چین کے پکوان تیار کرتے تھے۔
محب اللہ کہتے ہیں کہ ان پارٹیوں کا ایک مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہم طالب علموں کو چین کی ثقافت اور کلچر سے روشناس کروایا جائے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے یہ اساتذہ پاکستان کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے۔
محب اللہ کا کہنا تھا کہ ادارے میں افطاری کا بھی پروگرام ہوا تھا۔ اس میں کئی طالب علم شریک نہیں ہوسکے تھے کیونکہ یہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ کئی طالب علموں کی عدم شرکت پر چن سائی نے کہا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ عید کے موقع پر عید ملن پارٹی رکھی جائے۔ جس پر ہم سب بڑے پر جوش تھے۔
محب اللہ اپنے شفیق اساتذہ کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد چینی زبان کے مرکز کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اب اس حادثے کے بعد ہم نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ ہمارا ادارہ دوبارہ کھل بھی سکے گا کہ نہیں اور اگر یہ کھل بھی گیا تو اس کا ماحول کیسا ہو گا۔’
کراچی یونیورسٹی کے چینی زبان کے ایک اور طالب علم نثار اشتیاق کا کہنا تھا کہ حملے میں ہلاک ہونے والی چینی لیکچرار ڈنگ میوپینک اکثر ہمیں کہتی تھیں کہ ون بیلٹ ون روڈ کی وجہ سے آنے والے وقت میں چینی زبان پر عبور رکھنے والوں کی بہت مانگ ہوگی۔ اس لیے اگر ہم لوگوں کو اپنا مستقبل اچھا کرنا ہے تو ہمیں خوب محنت کرنی چاہیے۔
نثار اشتیاق کہتے ہیں کہ لیکچرار ڈنگ میوپینک اور لیکچرار چن سائی کو دیکھیں تو دونوں ایک دوسری کی بہنیں لگتی تھیں مگر ایسا نہیں تھا۔ دونوں کے مزاج میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔
‘ہمیں لگتا تھا کہ لیکچرار ڈنگ میوپینک بہت زیادہ پیشہ ورانہ انداز میں پڑھاتی تھیں۔ ان کا انداز کلاس کے اندر نو کمپرومائز والا ہوتا تھا جبکہ چن سائی کھلے ڈھلے انداز میں اپنا کام کرتی تھیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘مگر ایک بات دونوں میں مشترک تھی کہ وہ اپنے فرائض مکمل طور پر دیانت داری سے ادا کرتی تھیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا وہ کبھی تاخیر سے پہنچی ہوں۔ جس وجہ سے ہم لوگ بھی کلاس کی پابندی کرتے تھے۔’
نثار اشتیاق اس حملے میں زخمی ہونے والے چینی استاد لیکچرار وانگ یو پلیز کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔
رانا جاوید کہتے ہیں کہ پروفیسر ہوانگ گیپنگ سے چینی زبان کی تعلیم حاصل کرنے والے کئی لوگ اس وقت برسرروزگار ہیں۔
نہ صرف یہ کہ برسر روزگار ہیں بلکہ وہ اپنے خاندانوں کو اچھی زندگی بھی فراہم کررہے ہیں۔ یہ سب لوگ اس وقت صدمے کی کیفیت میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے بعد تقریباً اپنے تمام کلاس فیلوز سے بات ہوئی ہے۔ ہر ایک کی رائے تھی کہ یہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہیں۔ اس طرح ایک استاد کا مارا جانا بہت افسوسناک ہے۔ سب ہی لوگ مارے جانے والوں کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی