اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ کاؤنٹ ہوگا: چیف جسٹس

supreme court

سپریم کورٹ، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت، اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دلائل پیش کیے گئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہوا تھا جو آئین میں نہیں لکھا ہوا وہ عدالت کیسے پڑھے، اس نقطے پر سپریم کورٹ 2018کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، عدالت نے تمام امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کیساتھ بیان حلفی مانگا، قانون میں بیان حلفی نہیں تھا عدالتی حکم پر لیا گیا۔ بیان حلفی کے بغیر کاغذات نامزدگی عدالت نے نامکمل قرار دیئے تھے، عدالتی حکم پر کاغذات نامزدگی سے نکالی گئی معلومات لی گئی، عدالت نے فیصلے میں کہا انتحابی عمل میں شفافیت کے لیے بیان حلفی لیے گیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپکو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو الگ نہیں پڑھا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں انتخابات کی ساکھ اور تقدس کی بات کی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے جماعتیں ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، کوئی پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتا تو مستعفی ہوسکتا ہے ، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا تاحیات نااہل ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: چودھری برادران کی ایم کیو ایم کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کے ساتھ کیسے جوڑیں گے؟ کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں، رشوت لینا ثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بددیانتی ہے، قانونی بددیانتی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف رکن اگر کسی کا اعتماد توڑ رہا ہے تو خیانت کس کے ساتھ ہوگی ؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب سے پہلے خیانت حلقے کی عوام کے ساتھ ہو گی، ووٹر اپنا ووٹ ڈال کر واپس نہیں لے سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ جس سمت میں تیر چلائے وہ کہیں اور چلا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا مستعفی ہونے پر کوئی سزا ہے ؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی مستعفی نہیں ہورہا یہی تو مسئلہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی سیاسی بندے کا ذکر نہ کریں ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس ہے اسی تک رہیں ، کیا 63 اے کے نتیجے میں سیٹ خالی ہونا کافی نہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سے انحراف از خود مشکوک عمل ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی، آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں ؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے، آرٹیکل 63 میں نااہلی دو سے 5 سال تک ہے، قرض واپس کرنے پر نااہلی اسی وقت ختم ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے سندھ ہاوس حملے کے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ وزیراعظم نے کمالیہ کی تقریر میں کیا کہا کہ ججز کو ساتھ ملایا جارہا ہے؟ کیا آپ نے وزیراعظم کی بات کا نوٹس لیا ہے؟ عدالتی سوالات کو کس طرح لیا جاتا ہے اسکو بھی دیکھیں،سوشل میڈیا اور ٹی وی پر سنا تھا،سیاسی قائدین کو علم ہونا چاہیے کہ زیر التوا مقدمات پر بات نہ کریں۔ کیا وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کو علم ہونا چاہیے کہ زیر التوا مقدمات پر بات نہ کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے؟ کیا وزیراعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جاسکتا؟ کیا وزیر اعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روک سکتے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سوالات کے ذریعے کیس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، عدالت تقاریر اور بیانات سے متاثر نہیں ہوتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تقاریر سنتا نہیں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بھی کارروائی سے متعلق احتیاط کرنا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو بیانات اور تقاریر سے متاثر ہونا بھی نہیں چاہیے ، وزیر اعظم کو عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جس فیصلے کا آپ نے حوالہ دیا الیکشن سے پہلے کا ہے، الیکشن سے پہلے کا قانون بعد میں کیسے لاگو کردیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن قوانین آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈکلیئریشن دے تو الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں طریقہ واضح کردیا ہے تو کیا چاہتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کسی کا سچ میں ضمیر جاگ گیا ہو، الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ طریقہ کار سے متعلق کوئی سوال ریفرنس میں نہیں پوچھا، سوال نااہلی کی مدت اور ووٹ شمار ہونے کے ہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین کس بنا پر ہو گا؟چیف جسٹس نے کہا کہ توقع ہے آج آپکے دلائل مکمل ہو جائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج شاید مزید وقت درکار ہو، اسمبلی اجلاس میں کیا ہورہا ہے عدالتی کارروائی پر فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ مستقبل کے لیے ریفرنس لائے ہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیراعظم کو اعلیٰ عدالتوں پر اعتماد نہیں تو انکے نمائندوں کو کیسے ہو گا؟ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ اصل نقطہ نااہلی کا ہے اس پر سب ہی آپکو سننا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی کی مدت کے حوالے سے آرٹیکل 63 اےنیوٹرل ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کا سسٹم پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے، 10سے15 اراکین منحرف ہو جائیں تو یہ سسٹم کا مذاق بنانے والی بات ہے، پندرہ لوگ حکومت بدل کر دوبارہ الیکشن لڑیں تو میوزیکل چیئر چلتی رہے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے سسٹم کو بچانے کے لیے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ مطمئن کریں کہ منحرف ہونے سے سسٹم کو خطرہ ہو گا اور سنگین جرم ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک رکن دوسری جماعت کو فائدہ دیتا ہے تو سسٹم کو خطرہ کیسے ہو گیا؟ حلقے میں الیکشن کا کتنا خرچہ آتا ہو گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل95 مشترکہ حکومت کی بات کرتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اپنے لیڈر کے خلاف عدم اعتماد کر سکتی ہے، پارٹی خود عدم اعتماد کرے تو کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔پارلیمانی پارٹی وزیراعظم تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے تو پارٹی سربراہ بادشاہ نہیں ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ چوری کے کام کی رسید نہیں ہوتی ، چیف جسٹس نے کہا کہ گاڑی چلانا جرم نہیں لیکن اوور اسپیڈنگ پر چالان ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ممکن ہے انحراف کرنا غلط کے خلاف ہی ہو، کسی سے غلط کو غلط کہنے کا حق کیسے چھینا جا سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی ، پارٹی سے بے وفائی کو مثبت رنگ نہیں دیا جاسکتا، پارلیمانی نظام کے لیے اہم ترین کیس ہے، دلائل مکمل کرنے کے لیے ایک سے دو سماعتیں مزید درکار ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف کارروائی سے روک دیا

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جمعرات اور جمعہ کو بینچ لاہور میں ہو گا، رمضان شروع ہونے والا ہے ایک بجے سماعت ممکن نہیں ہو گی، کل تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں، دوسرے وکلا کو وقت دینا لازمی ہے۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں پورا سسٹم دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اپنے تحریری دلائل سے استفادہ کرے گی، کل ایک گھنٹہ آپ اور ایک گھنٹہ دوسرے فریقین کو سنیں گے،
علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے دلائل دوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسرے وکلا کا موقف سن کر ذہن مزید کھلے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان اور رضا ربانی کے دلائل سننا چاہیں گے، ابھی تک ہوا میں گھوڑے چل رہے ہیں، پارلیمنٹ نے آج تک آرٹیکل 63 اے کی نااہلی کی مدت کیوں مقرر نہیں کی؟ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کیا سوچ کر شامل کیا گیا ، جمہوریت آئین کا بہترین ڈھانچہ ہے، جمہوریت کے لیے کیا اچھا ہے یہ سوچ کر دلائل دیں۔

ن لیگی وکیل نے کہا کہ لازمی نہیں کہ جمہوریت آلودہ کرنے والے اپوزیشن سے ہی نکلیں ، جسٹس جمال نے کہا کہ جمہوریت لوگوں سے اور لوگوں کے لیے ہوتی ہے، دیکھنا ہے حکومت بچانی ہے یا پارٹی، عوام کا فائدہ کس میں ہے یہ بھی مدنظر رکھیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وقت کی کمی ہے کوشش کریں دلائل مختصر ہی رکھیں۔


متعلقہ خبریں