نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے خلاف مقدمہ دوبارہ شروع


کیوبا کی گوانتانامو بے جیل میں 15 سالوں سے قید خالد شیخ محمد اور چار دیگر ملزمان 2019 کے بعد پہلی مرتبہ آج فوجی ٹرائیبونل کے سامنے پیش ہوں گے۔

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مقدمے کی سماعت 2019 کے اوائل میں موخر کردی گئی تھی، اس مقدمے کے آٹھویں اورنئے ملٹری جج ایئر فورس کے کرنل میتھیو میک کال نے اشارہ دیا ہے کہ مقدمے کی سماعت سست رفتار سے آگے بڑھ سکتی ہے۔

پانچوں کو ایک انتہائی محفوظ اور خاردار تاروں سے گھرے ہوئے ملٹری کمیشن کے کمرہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا نائن الیون سے متعلق خفیہ دستاویزات جاری کرنے کا حکم

ان میں سے ہر ایک ملزم اپنی دفاعی ٹیم کے ساتھ ہوگا۔ حاضرین میں ان 2976 افراد میں سے بعض کے اہل خانہ ہوں گے، جن کے قتل کا الزام ملزمان پر عائد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد بھی موجود ہوگی۔

پانچوں ملزمان کو قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت جنگی جرائم کی ٹرائیبونل موت کی سزا دے چکی ہے۔ ملزمان کا دفاع فوج کے نامزد کردہ وکلاء اور پرائیوٹ سیکٹر اور غیر سرکاری تنظیمیں کررہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق وکلا دفاع اسے سی آئی اے کی ظالمانہ تفتیش کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات پر مبنی ایک ‘اوپن اینڈ شَٹ‘ کیس قرار دے رہے ہیں

یہ بھی پڑھیں:اسامہ بن لادن کے نائن الیون حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے، ترجمان طالبان

ملزمان کے وکلاء اپنے موکل کی دفاع کے لیے بعض خفیہ مواد کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومت اسے فراہم کرنے سے منع کررہی ہے۔ ان خفیہ مواد میں دراصل تشدد کے اصل پروگرام سے لے کر گوانتاناموبے کے حالات اور ملزمان کی صحت وغیرہ کی تفصیلات موجود ہیں۔

یاد رہے کہ ان کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت ایسے وقت شروع ہو رہی ہے جب نائن الیون پر حملوں کے 20 برس مکمل ہونے میں کچھ ہی وقت رہ گئے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں