جنگ کے اصول بھی کبھی بدلے ہیں؟ پوری فوج ہارتی ہے یا پوری فوج جیتتی ہے۔ نااہلیوں کے موسم سے ایک جنگ جاری ہے۔ ایک فوج، دو کمانڈر۔ دونوں بھائی۔ ایک بھائی جنگ ہارے لیکن دوسرا جیت جائے؟ کیا یہ ممکن ہے ؟ بس اتنی سی بات سمجھنی تھی شہباز شریف کو۔
شہبازشریف نے وہی کیا جو انہیں کرنا آتا ہے۔ جنگ لڑنے سے پہلے ہی پسپائی اور پسِ پردہ ملاقاتیں۔ جو چھِن گیا سو چھِن گیا، جو بچا ہے، اسے بچائے رکھنا ضروری ہے، یہی ان کا فلسفہ ہے۔ تاریخ کا سبق مگر کچھ اور ہے۔ ایک گھر آگ میں بھسم ہوتا رہے، ساتھ والا گھر مگر نہ جھلسے، ایسا بھی کبھی ہوا ہے؟
آزمائشوں میں لیڈر ابھرتے ہیں یا ڈوبتے ہیں۔ شہباز شریف ڈوب گئے، پارٹی کو بھی ڈبو دیا۔ نااہلیوں کے موسم میں انہیں موقع ملا، خود کو لیڈر منوانے کا۔ رہنما بننے کے بجائے انہوں نے مصالحت کار بننے کی کوشش کی، اِس آس پر کہ شاید الیکشن میں وہ کھیل نہ کھیلا جائے، جو نااہلیوں کے موسم میں کھیلا گیا۔ ایک سادہ سی بات مگر وہ نہ سمجھ پائے۔ بڑے بھائی کو نااہل کر کے جیل میں ڈالا جائے، چھوٹے بھائی کو مگر وزیراعظم بنا دیا جائے؟ کیا ایسا ممکن تھا؟ عمران خان اور شیخ رشید کو ان کے دھرنوں اور لامحدود تعاون کا یہی صلہ ملتا ؟ کیا انہیں یہ قبول ہوتا ؟ نواز شریف اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل کاٹنے لندن سے لاہور پہنچ گئے۔ یہی ان کا بیانیہ تھا اور اس بیانیے کی پذیرائی بھی ، مسلم لیگ کے کارکنوں میں ۔ شہباز شریف مگر بھائی کا استقبال کرنے ماڈل ٹاؤن سے ایئرپورٹ تک نہ پہنچے۔ یہ شہباز شریف کا بیانیہ تھا ، اعلانیہ بیانیہ ۔۔ خوف کا بیانیہ ۔۔ ہٹو بچو، بچا کچھا اٹھاؤ، کونوں کھدروں میں چھپ جاؤ۔ اس بیانیے کا انجام کیا ہوا ؟ الیکشن ہارا، وفاق اور پنجاب کی حکومتیں بھی۔ خود بھی نیب کے شکنجے میں آئے، جنہیں بچ بچا کر چلنے کا مشورہ دیا، وہ بھی بچ نہ پائے۔ اتنا کچھ کھونے کے بعد بھی شہباز شریف بدلے نہ ان کا بیانیہ۔ پس پردہ ڈوریاں ہلانے پر اب بھی ان کا ایمان ہے ۔ وہ خود خاموش رہے اور بڑے بھائی کوبھی خاموشی پر قائل کیا۔ اس آس پر کہ آخر کار مفاہمت کی پٹاری سے وہ این آر او نکال ہی لیں گے ، اپنے لیے اور بڑے بھائی کے لیے بھی ۔
نوے کی دہائی کے مفاہمتی نوازشریف اور 2010 کی دہائی کے مزاحمتی نوازشریف میں بڑا فرق ہے ۔ اب وہ سیاسی بساط پر پس پردہ چالوں کے زیادہ قائل نہیں۔ شہباز شریف اپنے پتے کیسے کھیل رہے ہیں ، مزاحمتی نوازشریف کے لیے سلاخوں کے پیچھے سے اس مفاہمتی بازی کو دیکھنا زیادہ خوش کن نہیں تھا۔ نوازشریف نے اس کے تنائج کا انتظار کیا، بس اتنا جتنا وہ کر سکتے تھے ۔ انہیں ضمانت میں توسیع ملی نہ بیرون ملک جانے کی اجازت۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نوازشریف کو اب پچھتاوا ہے ، چھوٹے بھائی کوپارٹی صدر بنانے پر۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ بہت سے منظر گھومتے ہیں نوازشریف کی آنکھوں میں ۔ ان کی اور مریم نوازکی گرفتاری کا منظراور شہبازشریف کی خاموشی، کوئی مزاحمت نہ احتجاجی جلسہ جلوس ۔ پھر ان کے ذہن میں منظر بدلتا ہے ، شہبازشریف کی پیشیوں پر کارکنوں کی ریلیاں اور احتجاجی نعرے ، ایک مختلف منظر ۔ پھر ان کے ذہن میں کچھ اور مناظر ابھرتے ہیں ۔ حمزہ شہباز کی گرفتاری کی کوشش پر کارکنوں کا حفاظتی حصار، مار کٹائی ، فلک شگاف نعرے اور نیب کی پسپائی ۔ ان مناظر میں کتنا تضاد ہے ، یہ تضاد نوازشریف کے دِل میں چبھتا ہے ، اور ان کی بیٹی کے دِل میں بھی ، اندر کی خبر بتانے والوں کایہ بتانا ہے ۔
نوازشریف اب کیا سوچ رہے ہیں ؟ بتانے والے پارٹی کے اہم اجلاس میں بتا چکے ، وہی اجلاس جہاں شہبازشریف کے مفاہمتی بیانیے کو تباہ کن قرار دیا گیا ۔ کیا اس بیانیے پر برسنے والے از خود برسے ؟ یا انہیں برسنے کا حکم دیا گیا ؟ یہ سمجھنے کے لیے افلاطونی عقل درکار نہیں ۔
اب نوازشریف اندر ہیں اور شہباز شریف باہر۔ باقی قیادت بھی مقدموں کے بوجھ تلے دب رہی ہے۔ کسی کو کِس حد تک دیوار کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے ؟ دیوار کے ساتھ لگتے لگتے جب سانس گھٹنے لگے تو مزاحمت ہی آخری چارہ ہوتی ہے۔ کیا نوازشریف پھر مزاحمت کے لیے تیار ہیں؟ فوری طور پر نہ سہی ، آہستہ آہستہ وہ صف بندی ضرور کر رہے ہیں۔
پارٹی میں فاختاؤں کا وقت گزر چکا، اب عقابوں کی واپسی ہے ۔ شعلے اگلتے خواجہ آصف اور رانا ثنااللہ اہم ترین عہدوں پرآ چکے ۔شاہد خاقان عباسی، باہر سے دھیمے مزاج ، اندر سے مگر سخت جان مزاحمتی، اب پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں ۔مریم نواز کا گرد اور زنگ آلود ٹویٹر بھی جھاڑ پونچھ کے بعد پھر سے تیز دھار ٹویٹس برسانے لگا ہے، اگرچہ اس بار ان کا نشانہ براہ راست ادارے نہیں ، تحریک انصاف ہے، جاننے والے مگر جانتے ہیں کہ یہ ٹویٹس اصل میں کس کے لیے ہیں۔
احسن اقبال، سعد رفیق، جاوید لطیف اور طلال چوہدری کی بلند آوازیں چار دیواری سے باہر گونجنے لگی ہیں ۔ کیمروں کے پیچھے چلے جانے والے پرویز رشید پھر سے ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ گر ہیں ۔ مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر بنانا، مشاہداللہ ، پرویز رشید اور طارق فاطمی کی واپسی ایک پیغام ہے ، ان سب کے لیے جو پیغام پڑھنا اور سمجھنا جانتے ہیں ۔
عقابوں کے لیے وہ فضا پوری طرح تیار ہے ، جو انہیں چاہیے ہوتی ہے ۔ آصف زرداری حکومت کے خلاف گھوڑے تیار کر رہے ہیں ، گرفتاری سے بچنے کے لیے ۔ مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی رِنگ میں کودنے کو بے تاب ہیں، اُس رِنگ میں جس سے وہ الیکشن میں باہر ہو گئے ۔ان سب کے لیے لڑائی کا ماحول اور جواز بن چکا۔ عقابوں کی واپسی کیا رنگ لائے گی ؟ بس تھوڑا سا انتظار۔ چھوٹی تو نہیں لیکن بڑی عید کے بعد، بڑی تیاری اور بڑی لڑائی ۔