برلن: جرمن پولیس نے عالمی سطح پرکی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں ڈارک نیٹ کے تین مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار ملزمان جرمن شہری ہیں اور ان کی گرفتاری بھی جرمنی سے ہی عمل میں آئی ہے۔
جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق گرفتار ملزمان ڈارک نیٹ پر ایسا غیرقانونی ’نیٹ ورک‘ چلا رہے تھے جس کا نام انہوں نے ’وال اسٹریٹ مارکیٹ‘ تجویز کیا تھا۔ عالمی سطح پر کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک ملین رجسٹرڈ اکاؤنٹس کا حامل اپنی طرز کا یہ دنیا کا دوسرا بڑا نیٹ ورک تھا۔
جرمن پولیس کے مطابق اس نیٹ ورک پر اپنے اکاؤنٹ چلانے والے ساڑھے پانچ ہزار کے قریب فروخت کنندگان چوری شدہ ڈیٹا، جعلی دستاویزات اور منشیات کی تجارت کرتے تھے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے گرفتار ملزمان کی عمریں 22 سے 31 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔
جرمن پولیس کے مطابق مشتبہ ملزمان کو جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے ’بی کے اے‘ کے اہلکاروں نے وفاقی جرمن صوبوں ہیسے، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور باڈن ورٹمبرگ میں مارے جانے والے چھاپوں کے دوران گزشتہ ہفتے گرفتار کیا تھا مگر ذرائع ابلاغ کو اس کی اطلاع گزشتہ روز دی گئی۔
جرمنی کے خبر رساں ادارے ’ڈی پی اے‘ کے مطابق فیڈرل کرائمز آفس کے اہلکاروں کو مشتبہ ملزمان تک پہنچنے میں طویل تحقیقاتی عمل سے عرصے تک گزرنا پڑا۔
ملزمان کے خلاف تحقیقات میں جرمنی کے تحقیقاتی اداروں نے جرمنی کی سائبر کرائمز ایجنسی ’زیڈ آئی ٹی‘، یورپی پولیس ایجنسی ’یوروپول‘ اور امریکہ و ہالینڈ کے تفتیشی و تحقیقاتی اداروں سے بھرپورمدد و معاونت حاصل کی۔
ڈی پی اے کے مطابق ڈارک نیٹ پر وال اسٹریٹ مارکیٹ نامی نیٹ ورک چلانے والے مشتبہ ملزمان کو جس وقت گرفتار کیا گیا اس وقت وہ زیر زمین جانے کی تیاریاں مکمل کرچکے تھے۔
جرمن پولیس اور اس کا ساتھ دینے والے دیگر تحقیقاتی ادارں نے جب ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے تو اس وقت انہیں رہائش گاہوں سے ساڑھے پانچ لاکھ یورو نقدی، متعدد مہنگی گاڑیاں اور زیراستعمال کمپیوٹر ہارڈ ویئر میں محفوظ لاکھوں یورو مالیت کی کرپٹو کرنسی بھی ملی۔
جرمن ملزمان کے خلاف کی جانے والی عالمی تحقیقات کے بعد امریکہ سے بھی دو ایسے ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے اسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے بڑی مقدار میں مشیات بھی فروخت کی تھیں۔
جرمن پولیس نے ملزمان کے پورے گروپ کا ہارڈ ویئر اوردیگر بیک اپ کمپیوٹرسرورز بھی اپنے قبضے میں لیے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر کام کرنے والا ڈارک نیٹ کا نیٹ ورک اپنی تمام غیرقانونی سرگرمیوں کے لیے مکمل طور پر بند ہوگیا ہے۔
جرمنی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ملزمان کے جس نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا ہے اس پرہیروئن، کوکین اورایمفی ٹامینز جیسی منشیات کے علاوہ مسروقہ آن لائن ڈیٹا، جعلی دستاویزات اور کسی بھی کمپیوٹر نیٹ ورک کو مفلوج کر دینے والے متعدد اقسام کے سافٹ ویئرز جنہیں اصطلاحاً ’malware‘ کہا جاتا ہے، کو فروخت کیا جاتا تھا۔
جرمنی سمیت دیگر عالمی تحقیقاتی ایجنسیوں و اداروں کے مطابق ڈارک نیٹ کی ’وال اسٹریٹ مارکیٹ‘ میں ہر قسم کی خرید و فروخت بٹ کوئن اور مونیرو جیسی کرپٹو کرنسیوں میں کی جاتی تھی۔ اس نیٹ ورک پر ہونے والی خرید و فروخت میں مشتبہ ملزمان اپنی خدمات کا معاوضہ چھ فیصد تک کمیشن کی صورت میں وصول کرتے تھے۔
اپریل 2019 کے دوسرے ہفتے میں یہ خبر پاکستان کے طول و عرض میں انتہائی تشویش کے ساتھ سنی و پڑھی گئی تھی کہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کا ڈیٹا ’ڈارک ویب‘ پر فروخت کیا جارہا ہے۔ اسی خبر میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ طالبات کا ڈیٹا ہیکرز نے اسپائی ایپ سے ہیک کیا ہے۔
پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے صورتحال سامنے آنے پر ملزمان کے خلاف کاررائی کا بھی آغاز کردیا تھا۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی کہ ہیکرزطالبات کا جو ڈیٹا فروخت کررہے ہیں ان میں طالبات کے نمبرز، تصاویراورویڈیوز بھی شامل ہیں۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ہیکرز ڈیٹا ڈیجیٹل کرنسی ’بٹ کوائن‘ میں فروخت کررہے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے بھی اس ضمن میں بتایا تھا کہ واقع کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کو خط لکھ دیا گیا ہے جس کے بعد اس کے سائبر کرائم ونگ نے تفتیش شروع کردی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ملک کے 22 بینکوں کے 19 ہزار 846 صارفین کے کارڈز کی معلومات فروخت کے لیے ڈارک ویب پر ڈالی گئی ہیں۔
ڈارک ویب دنیا کا وہ ’مخصوص‘ علاقہ ہے جہاں ڈارک نیٹ مارکیٹیں قائم ہیں۔ یہاں ہر وہ چیز فروخت ہو سکتی ہے اور خریدی جا سکتی ہے جس کا قانونی مارکیٹس اور مہذب دنیا میں شاید تصور بھی محال ہو البتہ خریداری ڈیجیٹل کرنسی ہی میں ممکن ہوتی ہے۔