ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا ؟ سپریم کورٹ کا سوال

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ ٹرانسفر ججز کے لیے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا ، جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں 15 واں نمبر تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی؟۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کی ، اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ججز ٹرانسفر پر آئے ہیں تو نئے حلف کی ضرورت نہیں۔

ججز کے تبادلوں میں چار مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے، سپریم کورٹ

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا، 4 ہائیکورٹ چیف جسٹسز اوررجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پرکوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ سیکرٹری لاء نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وضاحت اسلئے تھی کہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو۔

جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا،جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں 15 واں نمبر تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی؟۔

آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا ، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ، جسٹس جمال مندوخیل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ایک جج ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیتا ہے تو اس کی سنیارٹی شروع ہو جاتی ہے، کس جج کی سنیارٹی کیا ہو گی، یہ اس ہائیکورٹ نے طے کرنا ہوتا ہے۔

جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ سینیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گئی ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنیارٹی ایسا معاملہ نہیں تھا جو چیف جسٹس کے علم میں لایا جاتا۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ججز ٹرانسفر سے متعلق کونسا اصول اپنایا جائے گا اس پر آئین خاموش ہے ۔

عدالت نے کہا کہ ججز ٹرانسفر ہو کر آئے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سنیارٹی طے کرنے کے مجاز نہیں تھے، بعد ازاں عدالت نے سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں