ملک بھر سے جمع ہونے والا ٹیکس مخصوص علاقے میں کیوں خرچ کیا جائے؟ سپریم کورٹ

Supreme Court لاہور ہائیکورٹ بار

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ پورے ملک سے جمع ہونے والا ٹیکس مخصوص علاقے میں کیوں خرچ کیا جائے؟۔

سپریم کورٹ میں سُپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے وکیل رضا ربانی نے مختلف عدالتی ریفرنسز پیش کیے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سینیٹ کی سُپر ٹیکس کے حوالے سے کیا رائے ہے؟ جس پر وکیل رضا ربانی نے مؤقف اختیار کیا کہ سینیٹ کو سُپر ٹیکس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

وکیل رضا ربانی کی جانب سے دلائل مکمل کر لیے گئے۔ جس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ حقائق بتائیں سُپرٹیکس سے کتنی رقم اکھٹی اور کتنی خرچ ہوئی؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ 114 ارب روپے اکھٹے ہوئے اور وفاق نے 117 ارب روپے خرچ کیے۔ جتنا وفاق کا حصہ تھا اس سے زیادہ اس نے خرچ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان دہشت گردی کیخلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے، عطا اللہ تارڑ

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وفاق صرف اپنا شیئر خرچ کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اور پورے ملک سے پیسہ اکھٹا کر کے ایک مخصوص علاقے میں کیوں خرچ کیا جائے؟ جب تک این ایف سی فارمولہ تبدیل نہیں ہوتا تب تک وفاق اضافی فنڈز کیسے استعمال کرسکتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بیان سے میں مطمئن نہیں ہوں۔ وفاقی حکومت بھی اضافی اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ڈیولپمنٹ فنڈز بھی کسی اسکیم کے تحت ہی خرچ ہوتے ہیں۔ اور منصوبہ کیا تھا کچھ پتہ نہیں، ہوا میں پیسے آئے اورچلے گئے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 19 مئی تک ملتوی کر دی۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں