اسلام آباد ( زاہد گشکوری، مجاہد حسین، ابوبکرخان ) پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا ہے ، بھارت بین الاقوامی اُصولوں اور معاہدوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف سنگین اقدامات میں مصروف ہے۔
بھارت پہلگام حملے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، ہم انویسٹی گیٹس نے پاک بھارت گشیدگی کے تمام پہلو کوسمجھنے کی کوشش کی ہے، اس سے پہلے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خودکش حملے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے 40 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے پاکستانی کشمیر میں فضائی حملے کیے۔
اس کے علاوہ بھارتی ائیرفورس نے 26 فروری کو بالاکوٹ میں حملہ کیا۔ بھارت نے بالاکوٹ میں دہشتگرد کیمپوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ حقیقت میں نہ تو بالا کوٹ میں ایسا کوئی کیمپ تھا اور نہ ہی کوئی انتہا پسند گروپ وہاں موجود تھا۔
پہلگام فالس فلیگ، بھارتی میڈیا نے اپنی حکومت سے سوالات پوچھ لیے
بھارتی طیاروں نے ایک مقامی مدرسے کے ایک حصے کو نشانہ بنایا ،مقامی لوگوں کے مطابق بھارت کے اس حملے میں ایک کوا ہلاک ہوا۔آزاد ذرائع کی جاری کردہ تصاویر میں صاف نظر آتا تھا کہ نہ تو وہاں کوئی کیمپ تھا اور نہ کوئی بڑی آبادی بلکہ ایک چھوٹی سی مسجد اور اس کے ساتھ ملحق مدرسہ تھا، جہاں اُس وقت طالب علم بھی موجود نہیں تھے۔
بھارت کی اس فضائی دہشتگردی کے جواب میں پاکستان نے بھارتی علاقے میں حملہ کرکے اس کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور پاکستانی ائیرفورس نے تعاقب کرنے والے دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارت کے ایک پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کیا گیا۔ جسے پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت اگلے روز رہا کیا۔
بھارت نے اس واقعے کو سیاسی فاہدے کے لیے استعمال کیا اور بھارت میں عوامی ردعمل کے ذریعے ایک جھوٹا جنگی بیانہ بنانے کی کوشش اور پاکستان کے خلاف مظاہرے کروائے گئے۔
بھارت ایک بار پھر خطے میں جنگی جنون کو بڑھانے میں مصروف ہے اور اس نے انتہائی بھونڈے انداز میں سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل ، پاکستانیوں کے ویزے منسوخ اور پاکستان کے دفاعی سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے واہگہ اور اٹاری سرحد کو بند کر دیا۔ جس پر پاکستان نے بھی ردعمل کے طور پر سفارتی اقدامات کا اعلان کیا۔
پاک فوج نے ایل او سی پر ایک ہی روز میں بھارتی فوج کے 2کواڈ کواپٹر مار گرائے
ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ بھارت نے اپنی افواج کو لائن آف کنٹرول کے ساتھ تعینات کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنگی طیاروں، بھاری توپ خانے اور میزائل یونٹس کی سرگرمیوں میں تیزی کے دعوے کیے جارہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی بنیادی ذمہ داریوں میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنا اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرانا شامل ہے۔
بھارت گزشتہ چار برس سے ویسے بھی واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا۔ جبکہ دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے۔ بھارت صرف 30 سے 40 فیصد ڈیٹا ہی دے رہا ہے باقی پر وہ نِل یا نان آبزروینٹ لکھ کر بھیج رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے موجودہ اعلان کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بھارت پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاہم طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ بھارت ان دریاؤں پر جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ ان کا ڈیزائن پاکستان کو مطلع کیے بغیر تبدیل کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا معطل ہونا دونوں ممالک کو جنگی صورتحال کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی کا پابند کرتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ معاملہ لے جا سکتا ہے۔
بھارت کے پاس پہلگام حملے کے ثبوت نہیں ، پاکستان پر حملے کیلئے کیس بنا رہا ہے ، امریکی اخبار
ماہرین کہتے ہیں کہ اسی طرح بھارت میں بہنے والا دریا برہم پترا دریا چین سے نکلتا ہے اور اگر بھارت پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھتا تو اسے چین سے بھی اس دریا پر دباؤ اور خطرہ ہو سکتا ہے۔
2001 اور 2002 میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان حالات کشیدہ ہوئے تو بھارت کے آبی وسائل کے وزیر بجوئے چکرورتی نے کہا تھا کہ ’پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے انڈیا کئی اقدامات کر سکتا ہے اور اگر ہم نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان خشک سالی کی زد میں آ جائے گا اور وہاں کے لوگوں کو پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے بھیک مانگنی پڑے گی۔
2016 میں اڑی میں ایک فوجی کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے کے ڈیڑھ ہفتے بعد ستمبر میں سندھ طاس معاہدے کی ایک جائزہ میٹنگ ہوئی تھی جس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئےنریندر مودی نے اس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘
پہلگام حملہ ، کیرالہ ہائیکورٹ کے 3 ججوں نے بھارتی پروپیگنڈہ بے نقاب کر دیا
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارتی حکومت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے میں تبدیلیوں کا مطالبہ سامنے آیا ہو۔ دو برس قبل بھی انڈیا نے اس سلسلے میں پاکستان کو ایک نوٹس بھیجا تھا لیکن اس میں صرف ’تبدیلیوں‘ پر بات چیت کا ذکر تھا تاہم اگست 2024 میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس معاہدے پر ’نظرِ ثانی‘ کی بات بھی کی گئی۔
بھارت جنوبی ایشیا کے امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور بھارتی حکمران اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں۔ خدانخواستہ دونوں ممالک میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پورا خطہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔