گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے بیورو چیف ہم نیوز لاہور شیراز حسنات سے انٹرویو میں خصوصی گفتگو کی۔ ہم نیوز سے ان کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کا سارا کریڈٹ بلاول بھٹو کو جاتا ہے۔ چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو کے ادھورے مشن کو پورا کیا اور وہ اس کے حوالے سے کئی راتیں جاگتے رہے۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران بلاول بھٹو نے تحریک انصاف کو مذاکرات پر لانے کی کوشش کی۔ تحریک انصاف بالواسطہ پیپلز پارٹی سے بات چیت نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لئے چئیرمین پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کی خدمات لیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف چھبیسویں آئینی ترمیم پر ہونے والے تمام مذاکرات میں پوری طرح شامل تھی، ان کے رہنما اسمبلی میں اتفاق رائے سے ترمیم پر بات کرنا چاہتے تھے۔ لیکن رہنماؤں نے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی تو انہوں نے لیڈرز کو منع کر دیا۔ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی لیڈرز کو کہا کہ مذاکرات کرو گے تو میں اندر ہی رہوں گا، احتجاج کرو گے تو میں باہر آؤں گا۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف والے کوئی نہ کوئی بہانہ نکالتے ہیں بات نہ کرنے کا۔ آگے جا کر بھی تحریک انصاف ایک بار پھر جلسے جلوس، دھرنے کے موڈ میں ہے۔
گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ایک روایت بن چکی ہے کہ اب اس ملک میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ زیادہ چلتی ہے۔ ملکی مفاد کےمسئلے پر بھی ذاتی مفاد اور انا کو فوقیت دی جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے ہر اہم موقع پر احتجاج کر کے اپنے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی۔کوئی مہمان آئے تو تحریک انصاف احتجاج کرتی ہے، چین کے صدر کی آمد ہو، ملائشیا کے صدرنے آنا ہو، شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو، تحریک انصاف احتجاج کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب لوگ زیادہ دیر تک پاگل نہیں بن سکتے، سب کو معلوم ہے کہ ملک سب سے پہلے ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم میں ججز کی تعیناتی بذریعہ پارلیمانی پارٹی کرنے کے حوالے سے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کو میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا۔ بہت سے ممالک میں پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف پارلیمانی کمیٹی میں بیٹھتی تو چیزیں مزید بہتر ہو جاتیں۔ اس پر مزید بحث ہوتی، معاملہ ہو سکتا ہے آگے چلا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ تجربہ آگے جا کر کامیاب نہیں ہوتا تو اسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے کہ پارلیمان میں بیٹھے لوگ بحث کریں، اپنا موقف دلیل سے دیں۔
آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے حوالے سے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا کہ یہ جھگڑا کافی دیر سے چل رہا ہے۔ مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی بھی ایک رائے ہے۔ پارلیمنٹ نے بھی ایک فیصلہ دیا، آئینی طور پر پارلیمان سپریم ہے اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے پاس بھی گیا کہ کس کی مانوں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت قانون سازی پارلیمان جبکہ تشریح کرنا سپریم کورٹ کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اتحاد کے حوالے سے معاملات میں ڈیڈ لاک ہے۔ ہمیں حصہ نہ دینا مسلم لیگ ن کی اپنی سیاست ہے، اس حوالے سے اتحادی مسلم لیگ ن کو پریشان نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ہمیں حصہ دیا جانا ہمارا حق تھا، یہ طے ہوا تھا۔ امید ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں جو طے ہوا تھا، اس پر لیڈر شپ بات کرے گی۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے معاملات بلاول بھٹو اور وزیراعظم ، یا بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان ہونگے۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ بطور گورنر وہ اپنے ورکرز اور غریب عوام سے زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر سے بحال کرنے کے حوالے سے گورنر پنجاب نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ورکر ہر گلی ، ہر کونے میں ہے تاہم ہماری کچھ پالیسیوں سے ناراض ہو کر خاموش ہو گیا تھا۔ کوشش ہے کہ ورکرز کی مایوسی ختم کر کے انہیں گھروں سے باہر لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں کچھ نئی شمولیتیں ہونا ہیں، مگر چئیرمین بلاول بھٹو مصروف ہیں۔ جونہی وہ وقت دیں گے تو پاکستان پیپلز پارٹی میں نئی شمولیتیں کرائی جائیں گی۔
اس سوال پر کہ بلاول بھٹو لاہور میں فارم سینتالیس سے جیتے تھے یا فارم پینتالیس پر تو گورنر پنجاب نے کہا کہ اس الیکشن پر بہت سی انگلیاں اٹھی ہیں۔ الیکشن ایسا ہو کہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ سب کو ماننا پڑے کہ یہ الیکشن ٹھیک تھا۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ستائیس ویں ترمیم ہو اور الیکشن اہم نکتہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن پر اعتراض کی اہم ترین وجہ نظام کا کمزور ہونا ہے۔ پہلے اپنے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے حوالے سے گورنر پنجاب نے کہا کہ انہیں شک نہیں ہے کہ جب عوام نے ووٹ دیا اور پیپلز پارٹی جیت کر آئی، بلاول بھٹو وزیراعظم بنیں گے۔ وہ بحیثیت سیاسی ورکر خواہش رکھتے ہیں کہ بلاول اگلے چھ ماہ میں وزیراعظم بن جائیں مگر الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی ہماری خواہش نہیں ہے، مسلم لیگ ن کے اتحادی ہیں۔ انہیں سپورٹ کر رہے ہیں، سپورٹ کرتے رہیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک ذمہ دار جماعت ہے اور وہ سب سے پہلے ملک کو دیکھتی ہے۔ بہت سے کڑوے گھونٹ ہیں جو پیپلز پارٹی پینا نہیں چاہتی، مگر ایسا نہ کرے تو ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہماری اپنی ہے، وہ ہمارے دشمن نہیں ہے۔ سیاستدان وہ جو ان سے بات کرے اور اپنے حوالے سے چیزوں پر فیصلہ لے۔ انکا کہنا تھا کہ اس ملک کے خلاف جو جو سازشیں ہو رہی ہیں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
حالیہ دنوں میں صوبے کی جامعات کے وائس چانسلرز کی تعیناتی پر پنجاب حکومت کے ساتھ ہونے والے اختلاف کے حوالے سے گورنر پنجاب نے کہا کہ وائس چانسلرز کی تعیناتی کا معاملہ طوالت پکڑ گیا جس پر وہ خوش نہیں ہیں۔ وائس چانسلرز کو میرٹ پر ان لوگوں کو لگانا چاہیے تھا، جن پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی سرچ کمیٹیز کی جانب سے بھیجے جانے والے تمام نام انہوں نے مسترد کر دئیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ تیرہ میں سے سات وائس چانسلرز تعینات ہو گئے، چھ ابھی نہیں لگائے گئے۔ سات وائس چانسلرز بھی اس لئے تعینات کئے گئے کہ چودہ روز میں سمری واپس بھجوانی تھی۔ سمری پر دستخط نہیں کئے، تو پندرہویں دن واپس چلی گئی۔ انہوں نے واضح موقف دیا کہ اگر یہ سارے وائس چانسلرز بھی لگ جائیں ، انکے قلم سے نہیں لگیں گے۔ گورنر پنجاب نے بےبسی کا اظہار کیا کہ ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ وائس چانلسرز کے معاملے پر گلے شکوے ہیں، مگر اتحادی حکومت ہے، قیادت کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلی پنجاب کے پاس بہت سے اختیارات ہیں جس کے باعث وہ بہت سے معاملات پر فوکس نہیں کر پاتیں۔ اس میں سے کچھ اختیارات گورنر کے پاس ہونے چاہئیں۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کچھ اخیتارات تھے، کچھ واپس چلے گئے۔
پنجاب خصوصاً لاہور میں سموگ کے حوالے سے گورنر پنجاب نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ نجی ادارے بھی اس پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں وزیراعلی پنجاب کو لکھیں گے کہ مسئلہ پالیسی سازی کا نہیں ہے، پالیسیز موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کیا جانا بہت ضروری ہے۔