چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے ،آئینی عدالت کو نہ ماننے والا وکالت اورسیاست چھوڑ دے۔
بلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ افتخار چودھری بی سی او والا جج تھا وہ دونوں ہاتھوں سے سیلوٹ کرتے تھے ، میراعدالتی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ، آپ کمرے میں بیٹھ کرایک دوسرے سے سیٹنگ کرتے ہیں۔
آئینی ترامیم،فضل الرحمان راضی نہ ہوئے تو کوشش ہوگی ہمارے نمبرز پورے ہوں،بلاول بھٹو
ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا تصور بار بار کیوں آتا ہے ؟ نظام انصاف میں تھوڑے نہیں بہت مسائل ہیں،عدالتی نظام دہشتگردوں کو سزا نہیں دے سکتا، عدلیہ سے کوئی سوال کریں تو وہ برا مناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ میرے لیے سب سے محترم ہیں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ، ان دو ججوں میں کوئی بھی آ کر آئینی عدالت میں بیٹھے۔
بلاول نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے درمیان مک مکا ہوا کہ اگر چارٹر آف ڈیموکریسی نافذ ہو گا اور اگر 1973 کا آئین اصل حالت میں بحال کیا گیا تو اسٹیٹس کو کا کیا بنے گا؟ جمہوریت پر ہمارے کنٹرول کا کیا ہو گا؟۔
بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات، وکٹری کے نشان کے ساتھ واپسی
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج برے حالات ہیں ، مگر پہلے تو اس سے بھی برا حال تھا، ہمیں افتخار چودھری یاد ہے، افتخار چودھری نے مشرف کو اجازت دی کہ آئین میں ترمیم آپ نے کرنی ہے، آپ لوگ جو ہیں اسمبلی بھیجتے ہیں وہ تو بس ایسے ہی بھیجتے ہیں، پورے پاکستان میں یہ مسائل ہیں۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ آپ ہی بتائیے کہ توہین عدالت کا مطلب کیا یہ ہے کہ اگر کوئی کسی جج کے خلاف کچھ بولے تو آپ کو زندگی بھر کے لیے سزا ملے؟۔ کیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہے؟۔ کیا اظہار خیال کی آزادی یہ ہے کہ آپ کوئی فیصلہ دے دیں، آپ وزیراعظم کو نکال دیں، آپ اٹھارہویں اور انیسویں ترمیم میں تبدیلی کریں اور ہم چوں تک نہ کر سکیں؟۔