جھوٹے تبصرے کرکے ڈالر کمائے جاتے ہیں ، جو جتنا جھوٹ بولے گا اتنا ہی بکے گا ، چیف جسٹس

چیف جسٹس ( chief justice )

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جوجتنا زیادہ جھوٹ بولے گا ، اتنا ہی سوشل میڈیا پر بکے گا، جھوٹے تبصرے کرکے ڈالر کمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹسز کیخلاف درخواست پر سماعت  کی ، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنرعدالت میں ہے؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ایسی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ بالکل یہ پراسس کا غلط استعمال ہے۔

ججز کے خط پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس ، چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجز بینچ تشکیل ، بدھ کو سماعت

جسٹس فائز نے کہا کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواست گزاروں کو نوٹس کرکے طلب کیوں نہ کریں؟ اس دوران اٹارنی جنرل نے بھی درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کی۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حیدر وحید میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ حیدر وحید کورٹ اٹینڈ کرنے بھی نہیں آئے، ان کی پٹیشن آزادی اظہارکو یقینی بناتی یا مزید روکتی ہے؟ 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پردائر تھی، کیا ان کامقصد پورا ہو گیا؟

ججز کے معاملات اور عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا، چیف جسٹس

جسٹس فائز نے کہا کہ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا کہ یہ 6 درخواست گزار غائب ہو گئے، اسی لیے ہم نے کہا کہ ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے۔

 جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی، کہا گیا میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں،کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ کہا جائے گا چیف جسٹس کی اہلیہ نے تو تردید جاری نہیں کی، ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کرکے انہیں جیل بھیجیں؟

بعد ازاں چیف جسٹس نے سماعت کے حکم نامے میں لکھوایا کہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق پٹیشن واپس لینے کی درخواست آئی، نہ پٹیشن کے درخواست گزارعدالت آئے نہ وکیل، نہ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ۔

تحریک انصاف کا سینٹ انتخابات ملتوی کرنیکا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

حکم نامے کے مطابق درخواست میں کہا گیا کہ اب وفاقی حکومت میڈیا ریگولیشن کا معاملہ خود دیکھ رہی ہے، اٹارنی جنرل نے حکومت سے منسوب اس بات کی تردید کی۔

سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ، عدالت  نے فریقین سے تحریری دلائل بھی طلب کر لیے۔ بعد ازاں سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں