اسلام آباد: وفاقی کابینہ میں شامل کیے گئے اراکین، مشیر اور معاونین اپنے شعبوں میں ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں نگران وفاقی کابینہ میں 16 وفاقی وزرا، 3 مشیران اور 4 معاونین کو شامل کیا گیا ہے۔ اس نگران کابینہ کو ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہے جبکہ کچھ اراکین معروف سیاسی وابستگی رکھتے ہیں اور اس سے قبل مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ہم تحقیقاتی ٹیم نے عبوری وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کے پروفائلز اور کیریئر کی اسناد کا جائزہ لیا ہے۔ جس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نگران وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ انور علی حیدر
لیفٹننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر کو نگراں کابینہ میں وزیر دفاع اور ڈیفنس پروڈیکشن کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ سابق وزیراعظم کے دور میں “نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم” کے چیئرمین کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) کے چیئرمین، ملٹری پولیس کمانڈنٹ اور ایڈوجنٹ جنرل کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
نگران وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان
نگران کابینہ میں وزیر صحت کا قلمدان چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ندیم جان کو دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ندیم جان اقوام متحدہ، یو ایس ایڈ، یورپی یونین سمیت مختلف بین الاقوامی این جی اوز کے ہیلتھ مشنز کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کا شمار پاکستان میں پولیو سرویلینس کا نظام قائم کرنے والے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔
فاٹا کو مسلسل 2 سال پولیو فری کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے پر ڈاکٹر ندیم جان کو تمغہ امتیاز دیا گیا۔
انہوں نے فاٹا میں آنکھوں کے لیے آئی کیئر پروگرام کی بنیاد رکھی جبکہ فاٹا کے لیے پہلا صحت کا اصلاحاتی پروگرام بھی متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کامیاب پولیو فری پروگرام کے انعقاد کے بعد انہوں نے سوڈان میں پولیو ایمرجنسی مشن کی سربراہی کی۔ اس کے علاوہ وہ فلپائن میں بھی مختلف ہیلتھ مشنز کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی تابش گوہر
تابش گوہر نے اپنے پورے کیریئر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کے ای ایس سی کے سی ای او اور ابراج کیپیٹل میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مزید برآں، انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران پاور اور پیٹرولیم پر وزیر اعظم (ایس اے پی ایم) کے معاون خصوصی کے طور پر خدمات بھی سرانجام دیں۔
وفاقی وزیر گوہر اعجاز
چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن گوہر اعجاز کو نگراں کابینہ میں تجارت اور صنعت کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ وہ سابق سینیٹر مرحوم شیخ اعجاز احمد کے فرزند ہیں اور اعجاز گروپ آف کمپنیز کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔
وہ لاہور میں ’لیک سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ‘ کے بھی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کی خدمات کے لیے حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد
نگران مذہبی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے انیق احمد کو ایک مذہبی اسکالر اور قومی ٹی وی پروگرام کے میزبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ مذہبی امور پر کام کرتے ہیں اور اسلامی علوم میں گہری دلچسپی کے ساتھ ساتھ سماجی اور مذہبی امور کی اچھی سمجھ رکھتے تھے۔
آئی ٹی اور ٹیلی کام وزیر عمر سیف
نگراں کابینہ میں بطور وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کام ڈاکٹر عمر سیف لمز یونیورسٹی سے گریجویٹ اور 22 سال کی عمر میں کیمرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔
انہیں شہباز شریف کے دور میں سال 2011 میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا اور پنجاب کابینہ کا بھی حصّہ رہ چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کا پہلا ٹیکنالوجی انکیوبیٹر بنایا اور 3 سو سے زیادہ منصوبوں کا آغاز کیا۔
ان کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں بھی ستارہ امتیاز سے نوازا۔ وہ سال 2015 سے 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر ثقافت جمال شاہ
نگران وفاقی وزیر اداکار جمال شاہ کو وزیر برائے ثقافت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔
جمال شاہ نے 1984 میں بلوچستان یونیورسٹی میں فائن آرٹس کے قائم ہونے والے شعبہ میں 3 سال تک سربراہی کی۔ 1985 میں انہوں نے آرٹسٹ ایسوسی ایشن آف بلوچستان کی بنیاد رکھی اور آرٹسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان میں اس کے افتتاحی چیئرمین کا عہدہ سنبھالا۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ
ممتاز احمد تارڑ نے اگست 2017 سے مئی 2018 تک سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں کابینہ میں انسانی حقوق کے نگران وزیر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہوں ںے 1988 میں اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیا اور پہلی بار انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ وہ جون 2015 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی انوار الحق کاکڑ کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ سرفراز بگٹی کا تعلق بھی نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ہے۔ وہ بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں اور انوار الحق کاکڑ کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہیں۔
وفاقی وزیر قانون احمد عرفان اسلم
احمد عرفان اسلم ماہر قانون ہیں اور ماضی میں مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں جہاں وہ اٹارنی جنرل آفس کے بین الاقوامی تنازعات کے یونٹ میں کام کرتے رہے ہیں۔ احمد عرفان اسلم کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں پیش ہونے والی پاکستان کی لیگل ٹیم کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر
شمشاد اختر نگراں کابینہ میں واحد خاتون رکن ہیں۔ انہیں دوسری مرتبہ نگراں وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اس سے قبل 2018 کے انتخابات سے قبل بنائی جانے والی نگران کابینہ میں بھی وہ بطور وزیر خزانہ شامل تھیں۔
شمشاد اختر گورنر سٹیٹ بینک رہ چکی ہیں اور اقوام متحدہ کی سفیر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ وہ ایک ماہر معیشت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
وہ اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر تھیں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے مشیر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دے چکی ہیں۔ شمشاد اختر نے ورلڈ بینک میں بطور نائب صدر بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی
سابق سفیر جلیل عباسی جیلانی کو نگران وزیر خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ بطور نگران وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آچکے ہیں۔
جلیل عباس جیلانی دسمبر 2013 سے فروری 2017 تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر اور اس سے پہلے مارچ 2012 سے دسمبر 2013 تک سیکرٹری خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی
سینیئر صحافی و تجزیہ نگار مرتضٰی سولنگی کو وفاقی وزیر اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ مرتضٰی سولنگی بین الاقوامی ادارے وائس آف امریکہ میں بھی کام کرچکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں انہیں بطور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔
وہ مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔