64 فیصد نکاح رجسٹرار کے مطابق طلاق یا خلع لینے کا خواتین کا آزادانہ حق نہیں ہے، تحقیق


ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لاہور میں 86 فیصد نکاح رجسٹرار کا خیال ہے کہ دلہن اپنے نکاح نامے کی شرائط پر بات چیت کرنے کی اہل نہیں ہے جبکہ 85 فیصد کے مطابق نکاح نامے میں طلاق کا حق خواتین کو سونپے جانے سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا، 92 فیصد کا خیال ہے کہ بیوی کی کفالت کا حق اس کے شوہر کی اطاعت سے مشروط ہے۔

خواتین کی شادی کے حقوق کے حوالے سے یہ اعداد و شمار منگل کو پنجاب میں خواتین کے ‘شادی کے حقوق کا جائزہ’ کو لانچ کیے جانے پر سامنے آئے۔ یہ مطالعہ مرکز برائے انسانی حقوق (سی ایف ایچ آر) نے مساوی اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے اشتراک سے کیا تھا۔

اس مطالعے میں خواتین کے شادی کے حقوق کی حیثیت کا جائزہ لیا گیا تاکہ موجودہ قانون سازی اور ادارہ جاتی فریم ورک میں موجود خلاء کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے جو پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق تک رسائی اور ان پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے۔

اس مطالعے میں 1100 نکاح ناموں کا جائزہ لیا گیا اور پنجاب کے (2020- 2021 کے دوران) 2 پائلٹ اضلاع کی 14 یونین کونسلز بشمول لاہور اور پاکپتن میں 105 نکاح رجسٹراروں کا انٹرویو کیا گیا۔ اس کے علاوہ متعلقہ قانون سازی اور عمل درآمد کے فریم ورک کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

عدت میں نکاح مبینہ طور پر جرم کا ارتکاب ہے ،عدالت کاتفصیلی فیصلہ

مطالعے کے ذریعے جن اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں موجودہ قوانین جیسے کہ پنجاب مسلم فیملی لاز ترمیم 2015، جو کہ نکاح ناموں کے کالموں کو کراس کرنے یا انہیں خالی چھوڑنے پر پابندی ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنا، شادی کے حقوق اور قوانین سے متعلق نکاح رجسٹرار کے تصورات، عقائد، تفہیم محدود ہونا اور ان میں نکاح کی درستگی کے بارے میں ناکافی سمجھ ہونا اور نکاح نامے کے فارمیٹ، شقوں میں تضادات، شادی کے اہم حقوق تک رسائی نہ ہونا شامل ہے۔

پاکپتن میں کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 58 فیصد نکاح ناموں میں دلہن کے شناختی کارڈ کی تفصیلات غائب تھیں اور 23 فیصد میں دلہن کی عمر درج نہیں تھی۔ صرف 8 فیصد نے ماہانہ الاؤنس کا حق شامل کیا اور 2 فیصد نے بیوی کو طلاق کا حق دیا ہے۔

پاکپتن میں نکاح رجسٹرار کے سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد لوگ شادی کے مقاصد کیلئےجبر کے تحت دی گئی رضا مندی کو درست سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 58 فیصد نکاح رجسٹرار کا خیال ہے کہ نکاح کیلئے حق مہر لازمی شرط نہیں ہے۔ 6 فیصد کا خیال ہے کہ اگر سرپرست اجازت دے، بچپن کی شادی قانونی طور پر جائز ہے اور 40 فیصد کا خیال ہے کہ حق مہر واحد ملکیت نہیں ہے۔

انڈونیشین جوڑے کا خانہ کعبہ کے سامنے نکاح، ویڈیو وائرل ہوگئی

اسی طرح لاہور میں 15 فیصد نکاح ناموں میں دلہن کے شناختی کارڈ کی تفصیلات نہیں تھیں۔ 26 فیصد نکاح ناموں میں شناختی کارڈ کی تفصیلات کیلئے کوئی کالم نہیں تھا۔ 9 میں دلہن کی عمر درج نہیں تھی اور 31 نکاح نامے معیاری فارم سے مختلف تھے۔ صرف 9.7 فیصد نکاح ناموں میں ماہانہ الاؤنس کا حق دیا گیا اور 3 فیصد نے بیوی کو طلاق کا حق دیا۔

رجسٹراروں کے ساتھ کیے گئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 67 فیصد کا خیال یہ ہے کہ خواتین کا کام کرنے کا حق شوہر کی اجازت سے مشروط ہے۔ 26 فیصد نے دلہن کی مرضی سے زیادہ سرپرست کی رضامندی کو اہم سمجھا جبکہ 83 فیصد نے حق مہر کو شادی کیلئے لازمی نہیں سمجھا۔ 55 فیصد کا خیال تھا کہ حق مہر بیوی کی واحد ملکیت نہیں ہے اور 64 فیصد نکاح رجسٹرار سمجھتے تھے کہ طلاق یا خلع لینے کا خواتین کا آزادانہ حق نہیں ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے عائلی قوانین کی ماہر سینیئر وکیل طاہرہ حسن نے کہا کہ خواتین کے شادی کے حقوق کے تحفظ میں قانون سازی کی کمی نہیں بلکہ ثقافتی اور سماجی رکاوٹیں حائل ہیں جو ان حقوق کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔

اس موقع پر سی ای او مساوی فاطمہ یاسمین بخاری نے اس حوالے سے کہا کہ نکاح نامہ پر ہونے والی یہ اسٹڈی خواتین کے شادی کے حقوق پر بات چیت کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر نکاح نامے کو صحیح طریقے سے سمجھا اور بھرا جائے تو یہ خواتین کیلئے ضروری تحفظات فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ نکاح نامے کے ہمارے جائزے سے نکاح نامے میں زیادہ تر کالموں کا انکشاف ہوا جو خواتین کے حقوق سے متعلق تھےجیسے ماہانہ کفالت اور طلاق کا حق وغیرہ۔


متعلقہ خبریں