اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں، چیف جسٹس


چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آرمی افسران کا مورال ڈاؤن کرنے سے ان کا دشمن سے لڑنے کا جذبہ کم ہوتا ہے، ابھی کوئی ٹرائل شروع نہیں ہوا اور اس میں وقت بھی لگتا ہے، عید کے دن پبلک کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون ملٹری تحویل میں ہے، اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے دلائل صرف سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے بارے میں ہوں گے، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیے ہوئے کہا کہ ‘میں آئی ایس پی آر کی جانب سےدیے گئے بیان پر قائم ہوں۔ عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ مزید بہتر بتا سکیں گے۔’

ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلئے کوئی چھڑی نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہم اس وقت موجودہ عدالتی نظیروں کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، خاص طور پر ایف بی علی کیس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا، میں اس بات پر آج بھی قائم ہوں۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندر آ سکتا ہے یا نہیں؟ یہ الگ سوال ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ لیاقت علی اور ایف بی علی کیسز کا حوالہ دیا گیا، وہ الگ الگ ہیں۔  ایف بی علی کیس نیکسز کا کیس ہے جبکہ لیاقت علی کیس میں ایسا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسران کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟ وکیل عزیر بھٹاری نے کہا کہ فوجی جوانوں اور افسران پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا۔ 21 ویں آئینی ترمیم میں یہ اصول طے کرلیا گیا کہ سویلین کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہے۔

قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، چیف جسٹس

دورانِ سماعت جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگراندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جنگ اور دفاع پاکستان کو خطرات جیسے اصول 21 ویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل ملزمان کی حوالگی سے متعلق بتائیں کہ کونسا قانون استعمال کیا جارہا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔ ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون 2 ڈی ون کا استعمال کیا جارہا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس آفیشل سیکریٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں، بس ہوا میں باتیں کی جارہی ہیں۔ 2 ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟ عدالت کی معاونت کریں۔

فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، سپریم کورٹ

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت میں وقفے کے بعد جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے جرم آفیشل سیکیریٹری ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ دیکھائیں۔ جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آفیشل آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے علاقے پر حملہ یا استعمال جس سے دشمن کو فائدہ ہو جرم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی افسران کا سب سے اہم مورال ہوتا ہے۔ آرمی افسران کا مورال ڈاؤن کرنے سے ان کا دشمن سے لڑنے کا جذبہ کم ہوتا ہے۔ آرمی افسران اپنے ہائی مورال کی وجہ سے ہی ملک کی خاطر قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ کسی کے خلاف شواہد نہ ہونے پر کارروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ جو افراد غائب ہیں ان کے اہلخانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں، امید ہے وہ والدین کیلئے تسلی بخش ہونگی۔ میں نے کئی جیلوں کا دورہ کیا ہے جہاں قیدیوں کو کچھ وقت کال پر بات کرنے کیلئے دیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف کا اختیار ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیل میں ان 102 افراد کو پڑھنے کیلئے کتابیں مہیا کی جائیں گی۔ جیلوں میں قیدیوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ آپ کبھی اڈیالہ جیل گئے ہیں؟ اڈیالہ جیل میں کھانے پینے کا پورا ہفتے کا شیڈول ہوتا ہے، اس کو دیکھ لیں۔

دورانِ سماعت جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا یہ جو 102 افراد کی لسٹ آپ نے دی یہ پبلک ہو گی؟ جب لسٹ آپ نے بنا دی ہے تو اس کو پبلک کرنے میں کیا قباحت ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست ہے کہ 102 افراد کے نام اور تفصیلات کی لسٹ پبلک نا کی جائے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہیں۔ عید کے بعد کچھ ججز موجود نہیں ہوں گے، بینچ مکمل نہیں ہوگا۔ جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ابھی کوئی ٹرائل شروع نہیں ہوا اور اس میں وقت بھی لگتا ہے، ملزمان کو پہلے وکلا کی خدمات لینے کا وقت ملے گا۔ اگر کچھ ہوا تو مجھے فوری آگاہ کیا جائے، میں آئندہ ہفتے سے دستیاب ہوں گا۔


متعلقہ خبریں