قیامت جیسی صورتحال تھی، اور جی ٹی روڈ کی سیاست چلتی رہی، بلاول بھٹو

بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پاکستان میں قیامت جیسی صورتحال تھی، اور یہاں جی ٹی روڈ کی سیاست چلتی رہی۔

پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پاکستان کا موقف دنیا بھرمیں پیش کیا، سیلاب سے پاکستان کا آدھا حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا، ہم نے 2010 کا سیلاب دیکھا مگر 2022ک ےسیلاب نے سب کچھ متاثرکیا۔

انہوں نے بتایا کہ نیویارک، شرم الشیخ سمیت دنیا کے ہر فارم پر پاکستان کےساتھ ہونے والی ناانصافی کا معاملہ اٹھایا، سیلاب کی وجہ سے لوگ آج بھی مشکل میں ہیں،  سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات کررہے ہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ہمیں کچھ وقت ضروردرکار ہوگا مگر عزم ہمارا پختہ ہے، بلوچستان اور سندھ میں آج بھی مختلف علاقوں میں سیلابی پانی موجود ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی کے بعد انہیں گھر بنا کر بھی دیئے جائیں گے، سیلاب متاثرین کی بحالی، گھروں کی تعمیر اورنقصانات کےازالے کے لیے ورلڈ بینک سے رقم منظور کروائی ہے، لوگوں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہم نے مسلسل کوشش کرنی ہے، وسائل جمع کریں تاکہ ہم لوگوں کو مشکل سے نکال سکیں، جو کام ہم نے کرنا ہے ایک دم سے نہیں ہوگا، ہم متاثرین کوپیروں پر کھڑا کرناچاہتے ہیں، ہمیں وقت درکار ہے۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے انتظار نہیں کیا، مون سون کا سلسلہ چل رہا تھا انہوں نے ورلڈ بینک کے ترجمان سے ملوایا، وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی ٹیم سے کہا کہ تمام بحالی کے پروگرامز پر کام شروع کیا جائے، سیلاب کے بعد ہر ادارہ معاشی بحران کا شکار ہے، چاہتے ہیں پھر سیلاب آنے پر ہم لوگ تیار ہوں اور ایسے منصوبے بنائے جائیں کہ انفراسٹرکچر محفوظ رہے، صحت کا بحران بن چکا ہے، ایک تو بیماریاں پھیل رہی ہیں، صحت کے نظام کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں 50 فیصد تعلیمی ادارے متاثر یا تباہ ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن معاشی بحران کو سنجیدگی سے لیکر حکومت کا ساتھ دے، ہم بھی اپوزیشن کا حصہ تھے، حکومت کے خلاف تھے مگر کورونا میں ہم نے ساتھ دیا، سیاسی مخالفین ہماری مدد نہیں کرتے تو عوام کی مدد نہیں کرتے لیکن اپوزیشن کی جی ٹی روڈ کی سیاست چلتی رہی جس کا ملک کے اندر اور باہر برا تاثر گیا۔

جس اسکیل کا بحران ہے، ملکی سطح پر اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے، مشن مشکل ضرور ہے، وقت لگے گا لیکن ہم لوگوں کو لاوارث نہیں چھوڑیں گے، دنیا سے جو بھی مدد اکٹھی کر سکتے ہیں کریں گے، ابھی سے یہ کام شروع ہوگا، وزیر اعظم اوریواین سیکریٹری جنرل 9 جنوری کو کانفرنس رکھ رہے ہیں، بلاول نے کہا کہ ہم دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کریں گے، تب ہماری ابتدا ہوگی، کافی بڑی رقم ہے معاشی حوالے سے اس پر کام کریں گے، مشکل وقت ہے، ملکر مدد کریں گے تو آگے نکلیں گے، سیلاب میں قیامت سے پہلے قیامت جیسی صورتحال تھی۔

دادو کے عوام کو ماضی میں بھی اکیلا نہیں چھوڑا اب بھی نہیں چھوڑیں گے،  ہر مشکل سے نکل سکتے ہیں اگر مل کے کوشش کریں، بیوروکریسی کا شاید تاثر ملک میں اچھا نہیں لیکن میں نے افسران کی ریلیف کی فراہمی میں محنت دیکھی، لاڑکانہ میں کچرا اٹھانے کی سروس شروع کی ہے اور ویسٹ مینجمنٹ سروس کے ملازمین مدد میں لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قیامت جیسی صورتحال تھی، اور جی ٹی روڈ کی سیاست چلتی رہی، بلاول بھٹو

انہوں نے یو این سیکریٹری جنرل کا شکریہ بھی ادا کیا، کہا کہ انہوں درخواست پر پاکستان کا دورہ کیا، امریکا، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مشکل وقت میں ہماری مدد کی، قطر، یو اے ای کی ہر طرف سے ہمیں مدد ملی، مسلسل کام کر کے ہم اپنی منزل پر پہنچیں گے، لوگوں کی خوشحالی ترجیح ہے، ملک میں اس وقت وسائل کا فقدان ہے، ایک طرف بجلی آتی نہیں دوسری طرف بل برداشت سے باہر ہے۔

بلاول نے کہا کہ عمران خان نے جب بھی لانگ مارچ کیا ناکام ہوئے ہیں، پی ٹی آئی والوں نے اسپیکر کے پاوں پکڑے ہوئے ہیں کہ ہمارے استعفے قبول نہ کریں، وقت آتا ہے تو شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک غائب ہوجاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے پارلیمنٹ میں اپنا کردار اداکریں، اگر 6 ماہ عمران خان کی حکومت نہیں رہتی تو کیا مسئلہ ہے؟

ایم کیوایم سے معاہدہ ہے، چاہتے ہیں اس کے مطابق چلیں، ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی میں بہت اختلافات رہے ہیں اور آگے بھی ہوسکتے ہیں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ملکر کام کرینگی تو سندھ کا بھلا ہوگا، ایم کیوایم اور دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ ملکر کام کرنے کو تیار ہیں، عمران خان کہتے ہیں میرے لوگ اسمبلیوں سے استعفے دیں گے، میں عمران خان سے کہوں گا پارلیمنٹ آئیں اور اپنا کردار ادا کریں، عمران خان کی تو ابھی تک ضد ہی پوری نہیں ہورہی، اللہ کا فیصلہ ہے کہ سیلاب آنے سے پہلے عمران خان کو نکالنا تھا، عمران خان کی سیاست ملک کے مستقبل پر اثرانداز ہے، ان کی ضد پر جلد الیکشن نہیں ہوسکتے۔

 


متعلقہ خبریں