توہین عدالت کا قانون کیا ہے، سزاؤں اور اپیل کا طریقہ کیا ہے؟

فوٹو: فائل


آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت آرڈینینس کے تحت عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے، ججز یا گواہ کو دھمکانے، تضحیک کرنے یا تمسخر اڑانے پر توہین عدالت کی کارروائی کی جاتی ہے۔

توہین عدالت کا مقصد عدالتی عملداری کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عدالتی فیصلوں، احکامات اور عدلیہ یا ججز کی توہین کرنے پر توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔

قانون میں توہین عدالت کی تین اقسام متعین ہیں، کسی عدالتی حکم یا فیصلے کی تضحیک یا خلاف ورزی پر دیوانی توہین ، انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے، جج یا گواہ کو دھمکانے پر فوجداری توہین جبکہ ، کسی عدالت کے بارے میں تضحیک آمیز گفتگو ،یا جج کا تمسخر اڑانے پرعدالتی توہین لگتی ہے۔

ایڈوکیٹ سپریم کورٹ صفدر شاہین پیرزادہ کے مطابق توہین عدالت کی سزا دنیا کی بری ترین سزا ہے جو بھی فرد توہین عدالت کا مرتکب ہوتا ہے اسکے قانونی حقوق فوراً ختم ہو جاتے ہیں۔

سرکاری نوکری،بنک قرضہ جات اور سزا یافتہ شخص کہیں گارنٹی بھی نہیں دے سکتا ہے۔

ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اظہر صدیق کے مطابق توہین عدالت کی سزا چھ ماہ تک ہے۔ سیاست دان ہو تو سزا کے ساتھ پانچ سال کے لئے انتخاب لڑنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کے لئے نااہل قرار پا سکتا ہے۔ سیاسی لیڈروں کو عدالت کی سماعت ختم ہونے تک بھی سزا ہوئی ہے۔

ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور ممبر پنجاب بار کونسل محمد آصف کا کہنا ہے کہ توہین عدالت پر چھ ماہ سزا اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ مرتکب شہری ہر قسم کے سرکاری امور میں معاونت سے محروم ہو سکتا ہے۔ سرکاری نوکری اور مراعات نہیں لے سکتا۔ توہین عدالت پر سخت عملدرآمد ہونا چاہیے۔

عدالتوں کے فیصلوں کا احترام سب پر لازمی ہے کوئی بھی توہین کا مرتکب ہو تو عدالت  سخت احکامات جاری کر سکتی ہے۔

پاکستانی قانون کے مطابق توہین عدالت کے مرتکب شخص کی فوری گرفتاری کا حکم دیا جا سکتا ہے۔

فیصلہ ہائیکورٹ کا ایک جج کرے تو انٹرا کورٹ اپیل، اگر دو یا دو سے زائد ججز سماعت کریں تو اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے۔

توہین عدالت بھگتنے والے پاکستانی سیاستدان 

پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے سیاسی گفتگو میں توہین عدالت کا مرتکب ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں کئی سیاسی رہنماؤں کو اس جرم پر جیل کی ہوا کھانی پڑی، نااہلی اور جرمانوں کا سامنا کرنا پڑا۔

چار سابق وزرائے اعظم ذولفقار علی بھٹو، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان توہین عدالت کے کیسز بھگت چکے ہیں۔ آئین پاکستان کے ارٹیکل دو سو چار اور توہین عدالت آرڈیننس کے تحت  سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا ہوئی، عمران خان، نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے معافی مل گئی تھی۔

مسلم لیگ ن کے تین اراکین اسمبلی اختر رسول، طارق عزیز اور میاں منیر توہین عدالت پر پانچ سال کے لئے نااہل بھی ہوئے۔ لیگی رہنما دانیال عزیر اور نہال ہاشمی بھی توہین عدالت کے جرم میں سزائیں بھگت چکے ہیں۔

اس سے قبل ممیو گیٹ پر عدالتی کارروائی زیر بحث لانے پر خورشید شاہ، بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان اور قمرالزمان کائرہ کو شوکاز نوٹس جاری ہوئے تاہم کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر تنقید کرنے پر احسن اقبال کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوئی تو انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر سردار اکبر ڈوگر توہین عدالت کیسز پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں زیر التوا کیسز میں اپنی رائے دینے کی وجہ سے توہین عدالت کے کیس بڑھ رہے ہیں۔ عدالت توہین کے مرتکب ملزم کو قید و جرمانہ کی سزا سکتی ہے۔ معافی مانگنے پر عدالت ملزم کو معاف کرکے بری بھی کر سکتی ہے۔

تین نومبر 2007 ایمرجینسی کے تحت پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تاہم انکے مستعفیٰ ہونے پر کارروائی نہ ہوسکی تھی۔


متعلقہ خبریں