ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کرنے والی بیلاروس کی ایتھلیٹ کرسٹینا سیمنوسکایا نے جاپان سے زبردستی واپس اپنے ملک جانے سے انکار کردیا۔
سوشل میڈیا پر اپنے کورچز پر تنقید کرنے پر بیلاروس کی حکومت نے ریس میں حصہ لینے والی ایتھلیٹ کرسٹینا سیمنوسکایا کو واپس بلایا تھا۔ تاہم انہوں نے واپس جانے سے انکار کردیا اور خود کو ایئرپورٹ پر جاپانی پولیس کے حوالے کردیا۔
سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کرسٹینا سیمنوسکایا نے ملک واپسی کے حکم سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں واپس بیلاروس جانے سے ڈر لگ رہا ہے۔
بیلاروس کی 24 سالہ ایتھلیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواتین کی 200 میٹر ریس میں شرکت کرنا تھی لیکن کچھ کھلاڑیوں کی نااہلی کے بعد کوچز نے انہیں مختصر نوٹس کے ذریعے 400 میٹر ریس کی میں شرکت کرنے کا حکم دیا۔
آن لائن پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ کوچز کے اس فیصلے کے خلاف انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد بیلاروسی حکام جاپان میں ان کے کمرے میں آئے اور اپنا سامان باندھنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: امریکی جمناسٹ ذہنی مسائل کے سبب ٹوکیو اولمپکس سے دستبردار
انہوں نے کہا کہ انہیں ٹیم اور ریس سے اس لیے نکال دیا گیا ہے کہ انہوں اپنے انسٹاگرام پر کوچز کی غفلت کے بارے میں بات کی تھی۔
ایتھلیٹ کے مطابق انہیں زبردستی ٹوکیو کے ہنیڈا ہوائی اڈے پر لے جایا گیا لیکن ٹرمینل پر انہوں نے پولیس سے مدد مانگی تاکہ انہیں زبردستی فلائٹ میں سوار نہ کیا جاسکے۔
ایتھلیٹ نے سوشل میڈیا پر بعد میں کہا کہ اب وہ خود کو محفوظ کررہی ہیں اور وہ جاپانی پولیس کی تحویل میں ہیں۔
زبردستی واپسی پر بیلاروسی ایتھلیٹ نے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) بیلاروسی اسپورٹ سولیڈیرٹی فاؤنڈیشن (بی ایس ایس ایف) سے بھی مدد مانگی تھی۔
اپنے ایک بیان میں آئی او سی کے حکام نے کہا کہ ان کی کرسٹینا سیمنوسکایا سے بات ہوگئی ہے اور انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ خود کو اب محفوظ محسوس کررہی ہیں اور پولیس کی حفاظت میں ہیں۔
اس سے قبل بیلاروسی ایتھلیٹ نے یورپی ریڈیو فار بیلاروس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اپنے ملک واپس جانے سے ڈر لگ رہا ہے۔
دوسری جانب بیلاروس کی سرکاری میڈیا نے کرسٹینا سیمنوسکایا پر تنقید کرتے ہوئے کہ ان میں “ٹیم اسپرٹ” کی کمی ہے۔