نیب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، سابق ڈی جی نیب


کراچی: سابق ڈی جی نیب نے کہا ہے کہ ملک سے بدعنوانی ختم کرنی ہے تو ہر طبقہ کے بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ نیب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب شہزاد انور بھٹی نے کہا کہ جو بھی کرپٹ آدمی پکڑا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے شور مچاتا ہے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ نیب کسی کی طرفداری نہیں کر رہی اور کارروائیوں میں شفافیت ہے۔ حکومت سیاستدان بھی نیب کے دائرے میں ہیں اور ان کے خلاف بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم میں کوئی ٹائم لائن نہیں ہوتی اور 30 دن میں مقدمات کی سماعت ممکن ہی نہیں ہے جبکہ گواہوں کی لمبی لمبی فہرست اس لیے بنائی جاتی ہے تاکہ مقدمات کو طوالت دی جائے اور اس کی وجہ سے ہی مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے۔

شہزاد انور بھٹی نے کہا کہ نیب کو اپنے کارروائیوں میں شفافیت رکھنی چاہیے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے خلاف کارروائی ایک جیسے ہونی چاہیں تاہم اس وقت ہمیں کوئی جھول نظر نہیں آ رہا اور نیب اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی میں ملوث رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ کرنے کا فیصلہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ پروڈکشن آرڈرز کی وجہ سے تحقیقات ٹھیک طرح سے نہیں  ہو سکتی۔

سابق ڈی جی نیب نے کہا کہ پشاور نیب کی جانب سے حکومتی نمائندوں پر مقدمات بنے ہوئے ہیں جبکہ وفاق میں حکومت کو آئے ابھی تو ایک سال ہی ہوا ہے۔ حزب اختلاف کے افراد کئی سالوں سے حکومت کرتے رہے ہیں اور ان کی بدعنوانی کی فہرست لمبی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کی گرفتاریوں کے حوالے سے بھی شور مچایا جا رہا ہے لیکن بدعنوانی روکنے کے لیے سب کی پکڑ دھکڑ ہونا ضروری ہے۔ سابق ڈی جی پارکس 20 ویں گریڈ کے افسر تھے لیکن ان کے گھر سے اربوں روپے مالیت کا سامان برآمد ہوا۔

شہزاد انور بھٹی نے کہا کہ ٹیکس کا معاملہ نیب کا مسئلہ نہیں ہے۔ نیب صرف ایسے افراد پر ہاتھ ڈالتی ہے جو بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ حکومت نیب ترامیم کے ذریعے مختلف لوگوں کو بچانے کے چکر میں ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے نیب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ماہر قانون راجہ عامر عباس نیب ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کوئی کاؤنٹر چیک نہیں ہے اور عدالتوں میں آنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان مقدمات میں جھول ہے۔ سیاسی رہنما جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ان کے چہروں پر اطمینان ہوتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ رہا کر دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے مقدمات میں گواہوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے جس کی وجہ سے مقدمات لمبے چلتے ہیں اور اس وقت سینکڑوں مقدمات ہیں جبکہ جج صرف ایک ہی ہے۔

راجہ عامر عباس نے کہا کہ گرفتاری کا مقصد تحقیقات کرنا ہوتا ہے صرف سلاخوں کے پیچھے ڈالنا نہیں۔ حزب اختلاف کے لوگوں کو پکڑا جائے تو وہ کہتے ہیں حکومتی رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں نہیں کی جا رہیں۔ جسے پکڑا گیا اسے اپنا حساب دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیب میں ترمیم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بدعنوان افراد کو بچایا جا سکے۔ بیوروکریسی کے افراد سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں نیب کی جانب سے سیاستدانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے،نیر بخاری

ماہر قانون نے کہا کہ نیب کے قانون میں موجودہ اصلاحات سے تو لگ رہا ہے کہ نیب کو بالکل دیوار سے لگا دیا جائے اور وہ کرپشن روکنے کے لیے نہیں بلکہ کرپشن کرانے کے لیے بنائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہے۔ موجودہ چیئرمین نیب کو جو لوگ لائے تھے وہ اس وقت جیل میں ہیں جبکہ چیئرمین نیب کی گرفتاری کے اختیارات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں