اسلام آباد: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رہنما اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہیں، اشرافیہ نے پورے نظام کو جکڑ لیا ہے۔
پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء نے اپنے ابتدائیے میں کہا کہ مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی میں نوازشریف سے کم سے کم 50 افراد کی ملاقات کا مطالبہ کیا ہے، عام قیدی سے اس کے گھر والے 20 منٹ کے لیے بھی مشکل سے ملتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح آصف زرداری بھی ماضی کی سب چیزوں کو چھوڑ کر آگے دیکھنے کی بات کررہے ہیں، ہماری سیاست میں یہ وطیرہ بن گیا ہے اسمبلیوں کو عوام سے متعلق پالیسیوں کے بجائے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے خوف کو ہتھیار بنا کر اپنے لیے استعمال کیا اور پھر اسے سیاسی کلچر کا حصہ بنادیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیاء میں ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے کہ یہاں طبقات سے سلوک ان کے درجے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ہر طبقے کی نمائندگی کو یقینی بنانے کی کوشش ہونی چاہیے، ایم کیو ایم نے نچلی سطح کے لوگوں کو موقع دیا لیکن اس سے اس طبقے کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تجویز دی کہ جنہوں نے انتخاب کرنا ہے اور جن کا انتخاب ہونا ہے ان کے لیے کوئی بنیادی معیار مقرر کیا جانا چاہیے کیونکہ جنہوں نے قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ان سے متعلق بھی کھ شرائط کا ہونا ضروری ہے۔
رہنما بلوچستان عوامی پارٹی نے کہا کہ نوجوان قیادت اپنی الگ شناخت بنائے اور اپنے بڑوں کی غلطیوں کو بھی تسلیم کرے تو اس سے عوام ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشرہ، خاندان اور ملک شہری کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کرے اس سے سب بدل جائے گا۔
تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ نظام عوام دوست نہیں ہے، اس کا رویہ شخصی بنیادوں پر ہوتا ہے، یہ سیاست کا المیہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ لے کر ایوان میں آنے والا شخص بدل جاتا ہے اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ساختی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن اصل میں ہمارے رویے غیرجمہوری ہیں۔ عام لوگوں کو نہ تعلیم دی گئی ہے اور نہ ہی ان کی تربیت کی گئی ہے۔
ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ تحریک انصاف کی اب تک کی کارکردگی یہ ہے کہ جن باتوں پر ووٹ لے کر آئی ہے ان سے یوٹرن لے لیا ہے۔ عمران خان عوام دوستی پر مبنی پالیسیوں کے بجائے آئی ایم ایف کی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک عام لوگوں کو موقع نہیں ملتا۔ مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔
ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ خاندانی سیاست کے پس منظر سے آنے والے اسی مخصوص طریقے سے سیاست کرتے ہیں۔ جب تک نظام میں نئے لوگ نہیں آئیں گے، نئے طبقات کو نمائندگی کا موقع نہیں ملے گا تو یہی نظام رہے گا۔
انہوں نے ملکی مسائل کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ سب کو تعلیم دے دیں، اس سے ملک بدل جائے گا۔
ماہر قانون راجہ عامرعباس نے کہا کہ آئین تفریق سے منع کرتا ہے لیکن موجودہ نظام میں اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ہر آنے والی حکومت عوام سے ووٹ لے کر آتی ہے لیکن ان کے بجائے اپنے لیے قانون سازی کو ترجیح دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلیی جن کی سرمایہ کاری سے ایوانوں میں آتے ہیں، وہ انہی کے مفادات کے تحفظ میں لگ جاتے ہیں۔
راجہ عامر عباس نے کہا کہ ہمیں کسی اور نظام کے پیچھے جانے کے بجائے دیکھنا ہوگا کہ کس نظام سے بہتر طورپر ہمارے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ ووٹ خرید کرآنے والے نظام کا استحصال کرکے اپنے لیے فائدے سمیٹتے ہیں جیسے میثاق معیشت کی بات کرنے والی جماعتوں کے قائدین خود کرپشن پر جیلوں میں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں راجہ عامر عباس نے کہا کہ اگر احتساب نہیں کرنا، اس سے آگے بڑھنا ہے تو اگلا قدم عدالتیں بند کرنا ہوگا۔ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں، یہ غریب اور امیر کے لیے مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انصاف ہوگا تو اشرافیہ اور کچھ لوگوں کے لیے رعایتیں مانگنے اور دینے کی روایت خود ہی ختم ہوجائے گی۔
راجہ عامر عباس نے نوجوان قیادت سے متعلق سوال کے جواب میں تجزیہ دیا کہ موروثی سیاست کے ساتھ ساتھ اب موروثی کرپشن بھی سیاست میں آگئی ہے کہ نئی نسل پرانی قیادت کا دفاع اس طرح چاہتی ہے کہ کوئی ان کے ماضی کے اعمال سے متعلق سوال نہ کرے۔