سترہویں صدی کا مغل شہزادہ نورالدین جہانگیر تاریخ اور افسانوں میں شہزادہ سلیم کے نام سے مشہور ہے۔ عظیم الشان مغل سلطنت کا فرمانروا ہونے کے علاوہ جہانگیر کی وجہ شہرت ایک کنیز بھی تھی۔
یہ کنیز ہندوستان جانے والے ایرانی تاجروں کے قافلے میں تھی۔ ڈاکوؤں نے قافلہ لوٹا اور اس خوبرو کنیز کو مغل سلطنت کے سپہ سالار راجہ مان سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔
مان سنگھ نے حسن و جمال میں نہائی اس پری پیکر کنیز کو شہنشاہ اکبر اعظم کے سامنے تحفتاً پیش کر دیا ،،، اکبر نے اس دلنشین کنیز کو انارکلی کا نام دیا اور دربار کی خاص رقاصہ کے عہدے سے نواز دیا۔
شاہی قلعے میں واقع شیش محل کے دالان اور محرابوں میں پروان چڑھنے والی شہزادہ سلیم اور انارکلی کی محبت تو سلطنت کے کسی زندان کے در و دیوار میں انارکلی کے ساتھ ہی چنوا دی گئی لیکن اس حسن بلا خیز کنیز کا نام تاریخ، افسانوں اور داستانوں سے باہر قدیم لاہور کے گلی کوچوں اور تاریخی گزرگاہوں میں آج بھی زندہ ہے۔
شہر کے قدیم مرکز میں واقع نابھہ روڈ پر اسی کنیز کے نام پر قائم پرانی انارکلی بازار سے آئی جی آفس کی جانب جائیں تو بائیں جانب قدیم طرز تعمیر سے مزین، جاہ و جلال سے بھرپور پرشکوہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ 1861 میں تعمیر ہونے والی اس عمارت میں اسی مغل کنیز کے نام پر تھانہ قائم ہے جو تھانہ پرانی انارکلی کے نام سے مشہور ہے۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے طول و عرض کا نظام سنبھالا تو تین سال بعد لاہور میں تھانہ کچہری بازار کی بنیاد ڈالی۔ قیام پاکستان کے بعد تھانے کی وسیع تر حدود کو انتظامی بنیادوں پر 10 سے 12 تھانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یوں پرانی انارکلی کے قریب ہونے کے باعث تھانہ کچہری بازار تھانہ پرانی انارکلی میں تبدیل ہو گیا۔
158 سال قدیم اس تھانے میں انگریز، ہندو سکھ اور مسلمان پولیس افسران و اہلکار تعینات رہے۔ تھانے کی پرشکوہ عمارت کے دالان میں تاریخ کے معروف قیدیوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے، قدیم حوالات میں وہ قیدی تو نہ رہے، انکی مقید سانسیں آج بھی محسوس کی جا سکتی ہیں۔ 1928 میں اس وقت کے انگریز ایس ایس پی جان پی سانڈرز کے قتل میں انقلاب کے داعی، تحریک آزادی کے ہیرو شہید بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو اسی تھانے منتقل کیا گیا۔ بھگت سنگھ کو تو 1931 میں لاہور کے شادمان چوک پر پھانسی دے دی گئی، لیکن تھانہ پرانی انارکلی کے در و دیوار اس نوجوان انقلابی کو قید کرنے پر آج بھی نوحہ کناں ہیں۔
مغلیہ طرز تعمیر پر بنے اس تھانے کے کمرے کی دیواریں اس قدر چوڑی ہیں کہ سردیوں میں گرم اور موسم گرما میں کمروں کو ٹھنڈا رکھتی ہیں۔ حوالات کے کیواڑوں پر لگی کنڈیوں کو دیوار میں بنے طاقچوں میں مقفل کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی قیدی کو راہ فرار کا موقع ہی میسر نہ آ سکے۔ اونچے برآمدوں کے سرو قامت ستون عمارت کی شان و شوکت کی گواہی دیتے ہیں۔ انگریز راج میں تھانے کے سپاہی اپنے گھوڑے ان ہی ستونوں پر باندھتے تھے۔
تھانے کی عمارت کی طرح، محرابوں میں گھرا آنگن اور بیچوں بیچ لگا بوہڑ کا قدیم درخت، یہاں تعینات رہنے والے تھانیداروں، خاکی نیکر سے خاکی پینٹ پہننے والے پولیس اہلکاروں، انقلابی ملزموں سے سیاہ کار مجرموں اور جرم و سزا کی داستانوں کا اتنا ہی شاہد ہے جتنا یہ تھانہ خود۔
تھانے کی عمارت تو اگرچہ 1861 میں قائم کی گئی لیکن تھانے کے ریکارڈ میں 1860 کی ایف آئی آرز کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ریکارڈ روم میں گذشتہ دو صدیوں کی قدیم ایف آئی آرز اور روزنامچے موجود ہیں جن کے خستہ حال اوراق سے پرانی روشنائی میں درج برطانوی راج کی قانونی کارروائیوں کا احوال جھلکتا ہے۔
پنجاب پولیس اور والڈ سٹی اتھارٹی کی جانب سے بحالی کے بعد یہ تاریخی ورثہ اور اس میں موجود ریکارڈ محفوظ ہو گیا جو عہد جدید کے لوگوں کو تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا رہے گا۔
لاہور شہر کے مرکز میں واقع تھانہ پرانی انارکلی کی عمارت کی بحالی اور تزئین و آرائش کا کام تین سال کی مدت میں مکمل ہوا۔
سوا کروڑ روپے کی لاگت سے بحال ہونے والی تھانہ انارکلی کی عمارت کا افتتاح آئی جی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی نے 26 مارچ 2019 کو کیا۔
بحالی کیلئے محکمہ پولیس نے والڈ سٹی اتھارٹی اور محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کی مدد لی۔ انجینیئرز نے دلجمعی کے ساتھ عمارت کی اصل شکل میں بحالی کو یقینی بنایا۔