لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال کے معاملہ پر جوڈیشل انکوائری بنانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار شمیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے سیشن جج ساہیوال کو تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ تعینات کرنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے ؟ عدالت نے لسٹ فراہم کی تھی اور حکم دیا تھا کہ سب کو فون کرکے طلب کریں اور بیان ریکارڈ کریں۔
سردار شمیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
اسے بھی پڑھیے
سانحہ ساہیوال: ’فرانزک لیب کو اہلکاروں کے زیر استعمال اسلحہ، گاڑی بدل کر دی گئی‘
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سے مکالمہ کرتے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کو عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر نوٹس جاری کر دیں۔
جسٹس صداقت علی خان نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کبھی دفتر سے باہر بھی نکلتے ہیں۔
وکیل احتشام نے عدالت سے استدعا کی کہ جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ جو لوگ بھی اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہیں وہ جے آئی ٹی کو اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کر دی۔
اس موقع پر سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے ذیشان کے بھائی احتشام کے وکیل فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواست وزیراعظم کو بھجوا دی گئی ہے۔ ذیشان پر الزامات لگائے گئے لیکن کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا جب کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے ذیشان گناہ گار ثابت ہو۔
فرہاد علی ایڈوکیٹ نے مزید کہا کہ ذیشان کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل کمیشن سے تشکیل سے متعلق لاہور ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کر دی گئی۔
راجہ خرم شہزاد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں سیکرٹری داخلہ، آئی جی پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔