پشاور: گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی صوبے بھر کے تمام زنانہ اسکولوں میں مردوں کا داخلہ ممنوع قرار دینے کی ہدایت پر ملک بھر سے لوگوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے اسی فیصلے کی مناسبت سے ردعمل دیتے ہوئے سماجی کارکن ضیاالدین یوسفزئی نے ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ، ’’معزز وزیراعظم صاحب، آپ کا یہ فیصلہ طالبانائیزیشن کو قومی دھارے میں لانے کے مترادف ہے۔ کیا یہی وہ ’نیا پاکستان‘ اور ’انقلاب‘ ہے جس کے بارے میں پی ٹی آئی رہنما اپنی تقاریر میں دعوے کرتے تھے۔‘‘
Dear PM @ImranKhanPTI,
Is this the “Change” and “Naya Pakistan” you promised us?
Institutionalisation of Talibanisation?!“ No male minister, MNAs,MPAs & officers shall be invited to the girls schools as Chief Guests. Entry …strictly banned” pic.twitter.com/iYhzi49v7o
— Ziauddin Yousafzai (@ZiauddinY) October 29, 2018
ایک خاتون کا اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ “سوشل میڈیا یا دیگر میڈیا چینلز پر اسکول طالبات کی تقریبات کی کوریج نہ ہونا افسوفناک ہے۔ کیا یہی “نیا پاکستان‘‘ ہے جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ کیونکہ اس سے قبل میں ہم اس بات سے آگاہ رہتے تھے کہ تعلیم نسواں سے منسلک صوبے میں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں تاہم اب اس فیصلے کے بعد یہ ممکن نہیں ہو پائے گا‘‘۔
“No coverage of girls schools events on social media or mainstream media” welcome to #NayaPakistan earlier I followed news that coverage of sports events in girls schools wont be allowed to cover. Why? we girls do not need projection of our sports activities? https://t.co/WfGnojXEn8
— Maryam Shabbir (@S_Maryam8) October 29, 2018
کچھ لوگوں نے اس نئے حکم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے اس لیے یہ ایک اچھا قدم ہے۔ نیا پاکستان ہو یا پرانا پاکستان ایک مسلمان اس جاری کردہ ہدایت کو کبھی رد نہیں کرے گا۔خواتین کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ایک عظیم قدم ہے۔ صحافی اور سیاسترانوں کو بھی موجودہ حکومت کے اس حکم کی حمایت کرنا ہو گی۔
This is a great step (to ensure the protection of women’s abuse and rights) ever taken by @PTIofficial till now. If the journalists and politicians etc really admit @pid_gov as true “ISLAMIC REPUBLIC OF PAKISTAN”, then they must support the current order.
Great MashaALLAH.— Dr. Aftab Ahamd Khan (@AftabAhmadPeace) October 29, 2018
پاکستان تحریک انصاف کے کچھ حامیوں نے ٹوئیٹر پر اپنا موقف دیا کہ اس فیصلے سے ظاہر ہو چکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اب ’مدینہ کی ریاست‘ کے اصولوں کی پیروی کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے میں کچھ غلط نہیں ہے۔
Islamic Republic of Pakistan is following “Madina ki Riyasat” nothing wrong with this
— Aleena (@aleenamirzalhr) October 29, 2018
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم خیبرپختونخوا، ضیاء اللہ خان بنگش نے صوبے کے تمام گرلز اسکولوں بشمول خواتین اسپورٹس مقابلوں کی تقریبات میں مرد حضرات کی بطور مہمان خصوصی دعوت یا شرکت پر پابندی لگا دی تھی۔
جاری کردہ حکم نامے کے مطابق گرلز اسکولوں میں جتنی بھی تقریبات ہوں گی، اُن میں خواتین رکن صوبائی اسمبلی یا خواتین اعلیٰ افسران بطور مہمان خصوصی شرکت کریں گی۔
اس کے علاوہ گرلز اسکول کے کسی پروگرام کو سوشل میڈیا پر بھی مشتہر نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی خواتین کے اسکولوں میں ہر قسم کی تقریبات کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
فیصلے کے بارے میں مشیر تعلیم کا موقف تھا کہ پابندی کا فیصلہ والدین کی شکایات اور صوبے کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایات پر کیا گیا ہے۔