اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے 20 پاکستانیوں کو طلب کرلیا ہے۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں فارن اکاؤنٹ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ دبئی میں پراپرٹیز خریدنے والے کون ہیں؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پیسہ لیکر جانے والوں کی نشاندہی کر لی ہے۔ ڈی جی ایف آئی نے بتایا کہ 150 لوگوں نے دبئی میں پراپرٹی کو تسلیم کیا ہے جبکہ جائیداد خریدنے والے 894 لوگ ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دبئی میں پراپرٹیز کن ذرائع سے خریدی گئی؟ ڈی جی ایف آئی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ذرائع خریداری کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ 100 لوگوں کے نام دیں کل بلوا لیتا ہوں۔ چیف جسٹس کے سامنے 20 افراد کی فہرست پیش کی گئی جس پر انہوں نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ مذکورہ تمام افراد کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو بلا لیں تاکہ آکر بتا دیں باہر جائیداد کیسے بنائیں، دبئی میں 1000 ارب روپے کی جائیدادیں خریدی گئیں یہ رقم واپس آجائے تو ڈیم بنایا جاسکتا ہے۔
فارن اکاؤنٹس سے متعلق گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سوئٹزرلینڈ میں پاکستانیوں کے اکاونٹ کے بارے میں معلومات نہیں لی جا سکتیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ٹیکس مقاصد کے لیے کچھ ممالک نے اکاؤنٹ کی معلومات دینا شروع کر دی ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی اکاؤئنٹس کیس میں ٹھوس پیشرفت نہیں ہو سکی۔
سپریم کورٹ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ فارن اکاؤنٹ کی معلومات کو ٹیکس کے حصول کے لیے استعمال کر لیں اگر برطانیہ والے اکاوئنٹس ہولڈرز کے خلاف پراسیکوشن نہیں ہو سکتی تو ان سے ٹیکس تو وصول کریں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یوکے میں بھی پاکستانیوں کی جائیدادوں کی معلومات ملی ہیں لیکن پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیسہ ملک سے باہر لے جانے والے ملک کے دشمن ہیں۔