وزیراعظم عمران خان کی کہانی ان کی اپنی زبانی



اسلام آباد: پاکستان کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہونے والے عمران خان کی زندگی کے بہت سے گوشے منظر عام پر آچکے ہیں تاہم خاصے ایسے بھی ہیں جو بہت محدود حلقے تک ہی جانے جاتے ہیں۔

روزمرہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق تحقیقاتی صحافت کا امتیاز رکھنے والے ہم نیوز کے پروگرام ’ہم انویسٹی گیٹس‘ نے اپنے حالیہ نشریہ میں معمول سے ہٹ کر عمران خان کی زندگی کو موضوع بنایا۔ معاملات کو درست طور پر جاننے اور اب تک زیادہ نمایاں نہ ہونے والے پہلوؤں کو سامنے لانے کے لیے ’ہم انویسٹی گیسٹس‘ کی ٹیم نے ماضی میں عمران خان کے قریب رہنے والوں سے بھی رابطہ کیا۔

اس پروگرام میں عمران خان کی پیدائش اور ابتدائی رہائش سے لے کر کھیل اور پھر سیاست کے میدان تک پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کی مصدقہ معلومات جمع کر کے ناظرین تک پہنچائی گئی ہیں۔

عمران خان کا خاندان اور ابتدائی واقعات

عمران خان نے بتایا کہ ان کا ننھیال تقسیم برصغیر کے وقت بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر سے ہجرت کرکے لاہور آیا، ہجرت کے بعد ان کے نانا کے دو بھائیوں نے اہل خانہ سمیت زمان پارک میں رہائش اختیار کی جو اس وقت شہر سے بالکل باہر تھا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عمران خان کی پیدائش، پرورش اور ابتدائی تعلیم کے مراحل طے ہوئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے بتایا کہ جب وہ انگلینڈ گئے تو وہاں کا ماحول ان کے لیے بالکل نیا تھا اور جب چار سال بعد واپس آئے تو یکسر بدل چکے تھے۔

بقول وزیراعظم پہلے ٹیسٹ میچ میں ناکامی کے بعد انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا، ان کا مذاق اڑایا گیا۔ سب کا خیال تھا کہ میری کرکٹ ختم ہو چکی ہے۔ عمران نے کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ برے وقت سے دلبرداشتہ ہو کر ہار نہ مانیں اور میں آخری گیند تک ہار نہیں مانتا تھا۔

عمران خان کے متعلق دوسرے کیا کہتے ہیں؟

ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن(سیفما) کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے خصوصی پروگرام میں ’ہم انوسٹی گیٹس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کا آکسفورڈ میں داخلہ کھیل کی بنیاد پر ہوا تھا۔

پاکستان کے مشہور صحافی اور انگلش اخبار ’پاکستان ٹوڈے‘ کے ایڈیٹر عارف نظامی نے بتایا کہ عمران خان کے والد ایک انجینئر تھے اور غالبا ریپبلکن نامی فرم کے مالک بھی تھے۔ وزیراعظم کی والدہ کا تعلق برکی خاندان سے تھا جن کے نام پر شوکت خانم اسپتال بنایا گیا ہے۔

سابق کرکٹر اور کمنٹیٹر حسن جلیل نے عمران خان کے کیرئیر کو چند الفاظ میں سموتے ہوئے کہا کہ سابق کپتان منزل کے تعین،  پیشہ ورانہ مہارت، لگن اور خلوص کے ساتھ محنت کرنے والے کھلاڑی تھے۔

انہوں نے عمران خان کے کیریئر میں لارڈز ٹیسٹ کے آخری دن کو یادگار قرار دیا جب پاکستان کو انگلینڈ کی ایک وکٹ درکار تھی اور عمران خان نے اننگز کے پہلے اوور میں مخالف کھلاڑی کو آؤٹ کردیا تھا۔

اقبال قاسم نے ’ہم انوسٹی گیٹس‘ کو بتایا کہ اس زمانے میں فٹنس اور کوچنگ کا کوئی رواج نہیں تھا لیکن فٹنس اور ٹریننگ  کے لیے عمران خان کا اپنا پروگرام ہوتا تھا۔ اپنی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عمران خان شرمیلے انسان تھے اور میں نے کبھی خیال نہیں کیا تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان بنیں گے۔

سابق کرکٹر مشتاق احمد نے بتایا کہ وہ 1992 کا ورلڈ کپ نہیں بھول سکتے جب پاکستان کی ٹیم نیچے سے دوسرے نمبر پر تھی اور عمران خان نے ٹیم کو کہا کہ اگر ہم آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرا دیں تو ہم ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں۔

بھارت کو بھارت کی سرزمین پر شکست دینے کے بعد عمران خان کو فائٹر جیٹ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے دنیائے کرکٹ کو نیوٹرل ایمپائر کا تصور بھی دیا۔

موجودہ پاکستانی وزیراعظم واحد ایشیائی باشندے ہیں جنہوں نے بغیر کسی حکومتی عہدے کے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کیا اور وہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہے۔

1971 میں ڈھاکہ سے پاکستان آنے والی آخری فلائٹ پر عمران خان بھی سوار تھے۔


متعلقہ خبریں