اسلام آباد: پاکستان میں 1988 کے الیکشن کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اگلے الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکی، لیکن کئی سیاست دان ایسے ہیں جو ہر حکومتی اتحاد کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں شیخ رشید، زاہد حامد، مخدوم خسرو بختیاراور شاہ محمود قریشی کے نام نمایاں ہیں۔
2002 کے الیکشن میں ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بجائے ق لیگ بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور متحدہ قومی موومنٹ پانچ سال تک ق لیگ کی اہم اتحادی رہی۔
2008 کے الیکشن میں ق لیگ کا صفایا ہوا اور اقتدار پیپلز پارٹی کو منتقل ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے لیے ن لیگ بھی حکومتی اتحاد کا حصہ رہی لیکن ن لیگ کے الگ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو ق لیگ اور ایم کیو ایم سے ہاتھ ملانا پڑا۔
2013 میں ن لیگ نے اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو کئی سیاست دان جو 2002 میں ق لیگ کی جانب سے وزیر تھے، ن لیگ کی اگلی صفوں میں نظر آئے۔ پارٹی بدلنے والوں میں نمایاں چہرے اویس لغاری، دانیال عزیز، زاہد حامد، رضا حیات ہراج اور ماروی میمن شامل تھے۔
2018 میں پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لے کر حکومت بنانے جا رہی ہے لیکن پرانے چہرے اس حکومتی اتحاد میں بھی شامل ہیں۔ ماضی میں ق لیگ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا حصہ رہنے والے امیدوار، شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، غلام سرور خان، میاں سومرو اور مخدوم خسرو بختیار اب پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ حکومتی بینچوں پر بٹھیں گے۔
پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ ق، عوامی مسلم لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان شامل ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے رکن اسمبلی شیخ رشید بھی ماضی میں ن لیگ کا حصہ بن کر اسمبلی میں موجود رہے ہیں۔ ق لیگ بنی تو وہ اسے پیارے ہوئے اور جب اس کا سورج ڈھلا تو شیخ رشید نے اپنی جماعت بنا ڈالی۔ وہ حالیہ اسمبلی میں رکنیت کا حلف اٹھانے والوں میں بھی شامل ہیں۔
پیپلزپارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری صدر مملکت رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے سینیٹر بھی منتخب کیے گئے تھے۔؎