اسلام آباد: 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مجموعی طور پر تقریباً 440 ارب روپے خرچ ہوں گے، جو 2013 کے مقابلے میں دس فی صد زائد ہیں۔
2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق ملک میں مجموعی رائے دہندگان (ووٹرز) کی تعداد تقریباً دس کروڑ 60 لاکھ ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2018 کے انتخابات پر اخراجات کے لیے 21 ارب روپے کا خطیر بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ 2013 کے انتخابات میں اخراجات کا بجٹ چار ارب 70 کروڑ روپے تھا اور 2008 کے انتخابات میں اخراجات کے لیے ایک ارب 80 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ہر ایک ووٹر پر 2013 اور 2008 کے مقابلے میں بالترتیب 341 فی صد اور 900 فی صد ہوشرُبا اضافے کے ساتھ 198 روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ 2013 میں آٹھ کروڑ 60 لاکھ ووٹرز میں سے ہر ایک ووٹر پر 58 روپے، اور 2008 میں آٹھ کروڑ دس لاکھ مجموعی ووٹرز پر فی کس فقط 22 روپے خرچ کیے گئے تھے۔
یہ تو تھا سرکاری خرچ ۔ اب آپ کو احوال بتاتے ہیں اُس خرچ کا، جس کا حساب لگانا ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے ہر امیدوار کے لیے حلقے میں انتخابی مہم پر اخراجات کی حد 40 لاکھ روپے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 20 لاکھ روپے مقرر کی ہے۔
اخراجات کی یہی حد 2013 اور 2008 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 20 لاکھ روپے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 15 لاکھ روپے مقرر تھی۔
2008 میں امیدوار کا ہر ایک ووٹر پر خرچ 17 روپے، 2013 میں اُس سے بھی کم یعنی 16 روپے، اور حالیہ انتخابات میں معمولی اضافے کے ساتھ 21 روپے رکھا گیا ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ 21 روپے کے بجائے ہر ووٹر پر چار ہزار 151 روپے خرچ کیئے جائیں گے یعنی 2018 کے انتخابات میں مجموعی طور تقریباً 440 ارب روپے خرچ ہوں گے جو 2013 کے 400 ارب کے اخراجات سے دس فی صد زیادہ ہیں۔
2008 میں تو 2013 کے مقابلے میں نصف یعنی 200 ارب روپے خرچ ہوئے تھے۔
امیدواروں کی جانب سے انتخابات میں کیے جانے والے ان بےدریغ اخراجات سے انتخابات سے تعلق رکھنے والی چھوٹی بڑی صنعتوں، کارخانوں، مارکیٹوں، دکانداروں، حتیٰ کہ کارکنوں کا معاشی بھلا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ معیشت کا پہیہ بھی زوروں سے دوڑنے لگتا ہے۔
انتخابی اخراجات میں غیرمعمولی اضافے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے علاوہ نسبتاً کم استطاعت رکھنے والے امیدواروں کا استحصال اور حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔