سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کامختصر فیصلہ 12 جولائی کوسنایا گیا تھا، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، الیکشن میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کوکالعدم قراردیتے ہیں،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔
مالیاتی پالیسی میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں۔
سپریم کے تفصیلی فیصلے کے مطابق انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے الیکشن کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا،جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں،جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اخترنے 12 جولائی کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی،عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے،تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدارہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین اور قانون کسی شہری کوانتخاب لڑنے سے نہیں روکتا، عوام کی خواہش اورجمہوریت کے لئے شفاف الیکشن ضروری ہے،آئین عوام کو اپنا جمہوی راستہ اپنانے کا اختیار دیتا ہے،عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کے لیے اہم ہے۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی امیدواروں کونوٹیفائی کرے، فیصلے میں کہا گیا کہ بھاری دل سے بتاتے ہیں جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے 80میں سے 39ایم این ایز کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا،عدالت نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ وہ باقی 41ایم این ایز کے 15روز میں دستخط شدہ بیان لیں۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی حیرانی کا اظہار کیا، الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا،تفصیلی فیصلے مطابق الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔
اعتراض کالعدم ، پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنیکا حکم
سپریم کورٹ نے بلے کے انتخابی نشان چھیننے کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا، عدالت نے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کیلئے بنائی گئی انتخابی رولز کی شق 94 بھی کالعدم قرار دے دی۔بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کر دیے جاتے تو ابہام پیدا ہی نہ ہوتا۔
رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے،رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود ہی نہ ہو۔
رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے۔
الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے،عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے،پارٹی کے اندرونی معاملے پر شہریوں کے ووٹ کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کیا جا سکتا،بلے کے نشان کا فیصلہ نظرثانی میں زیرالتوا ہے اس لئے اس پر رائے نہیں دے سکتے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دینا الیکشن کمیشن کی جانب سے اضافی سزا ہے،واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی،آئین میں دیے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے،جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہوگئے،ایک حد تک مکمل انصاف کا اختیاراستعمال کرنے پر چیف جسٹس اور باقی تین ججز بھی متفق تھے۔