اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔
سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کی جانب سے تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کی متفرق درخواست پر فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔
فارم 45اور فارم 47سے متعلق پراپیگنڈا کی کہانی سامنے آنے والی ہے،بلاول بھٹو
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے اور یہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست درست نہیں اور یہ اقدام غلط فہمی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا ہے، اور اب وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا۔
حکومت کو قومی اسمبلی میں 11، سینٹ میں4 میجک نمبر کی تلاش
فیصلے میں مزید کہا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوارہیں اور الیکشن کمیشن کو 12 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی متفرق درخواست نمٹائی جاتی ہے اور اس فیصلے پر کوئی مزید وضاحت قبول نہیں کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے نے واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن کے مطابق تحریک انصاف ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اور اقلیتی ججز نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلیم کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ سرٹیفیکیٹس جمع کرانے والے ارکان تحریک انصاف کے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی ہے، لیکن عدالت نے 12 جولائی کے فیصلے کو واضح قرار دیا ۔
سپریم کورٹ کے جاری فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کا کام منسٹریل سے زیادہ نہیں تھا، اور اس کی جانب سے اپنے فرائض سے انکار یا ناکامی کے نتائج ہو سکتے ہیں۔
حکومت کے ساتھ کھڑا ہوں یا اپوزیشن کے ساتھ جلد پتہ چل جائے گا، مولانا فضل الرحمن
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جمع کروائے گئے سرٹیفیکیٹس میں عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل اور بیرسٹر گوہر علی خان کو پارٹی چیئرمین کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کرنے کے بعد پیچھے نہیں ہٹ سکتا، اور ایک مرتبہ تصدیق کرنے کے بعد دوبارہ تصدیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔