اسلام اباد (زاہد گشکوری ،ایڈیٹرانویسٹگیشن ہم نیوز) فلورمل مالکان، تاجروں اورگندم سمگلروں نے چند مہینے میں 25 ارب روپے اضافی منافع کما لیا۔
گذشتہ پانچ سال میں آٹے کی قیمتوں میں چار سو گنا ہوشربا اضافہ ہوا ہے، ہم انویسٹگیشن کی تحقیقات کے مطابق اگست 2018 میں آٹے کی فی کلوقیمت 32 روپے تھی جو اب بڑھ کر160 روپے سے بڑھ گئی ہے۔
پچھلے ایک سال سے ملک میں غریب کےلئے روٹی کا حصول مشکل سے مشکل ترین ہوگیا، گندم کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی عروج پر ہونے کی وجہ سے منافع خوروں نے پچیس ارب کا اضافی منافع عوام کی جیب سے نکال لیا ہے۔
حکومتوں کی غلط پالیسی سے آٹے کی قیمت آسمان پر کیوں ہے ؟ اس حوالے سے ہم انوسٹی گیشن ٹیم تفصیلات سامنے لے آئی۔
اعدادوشمار کے مطابق آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 640 روپے سے 3220 روپے ہوگئی، اگست 2018 میں آٹے کی فی کلو قیمت 32 روپے جبکہ رواں ماہ 160 روپے ہوگئی۔
پچھلے 7 ماہ میں آٹے کی قیمت میں 85 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے ایک سال میں آٹے کی قیمت میں 170 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2021 سے دسمبر 2022 تک آٹے کی قیمت میں 75فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا تھا جبکہ دسمبر 2020 سے دسمبر 2021تک آٹے کی قیمت میں 41 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2019 سے دسمبر 2019 تک آٹے کی قیمت میں 30 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا، حاصل اعدادوشمار کیمطابق دسمبر 2018 میں آٹے کی فی کلو قیمت 32روپے تھی، جولائی 2019میں 43 روپے فی کلوگرام ہوگئی۔
تحقیقات کےمطابق جنوری 2020میں 15کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 690روپے تھی جو جون 2020میں بڑھ کر 810 روپے ہو گئی، جنوری 2021میں آٹے کی قیمت 65روپے فی کلو گرام جبکہ جون 2021میں 60روپے فی کلوگرام تھی۔
دسمبر 2021میں آٹے کی قیمت 73 روپےجبکہ جنوری 2022میں 118 روپے فی کلوگرام ہوگئی، پانچ سال میں گندم کی قیمت 1900 روپے فی من سے بڑھ کر 4600 روپے فی من ہوگئی، گندم کی قیمت میں 230 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔
تحقیقات کے مطابق اوپن مارکیٹ میں گندم کی فی من قیمت 6000 روپے سے اوپرہے جبکہ ستمبر2018 میں گندم اور آٹے کی فی کلوقیمت کا فرق صرف پانچ روپے کا تھا جبکہ اگست 2023 میں یہ فرق 45 روپے ہوگیا۔
جولائی 2019 میں گندم اور آٹے کی فی کلو قیمت میں فرق 12 روپے کا ہوگیا، ستمبر 2020 میں آٹے اور گندم کی قیمت میں فرق 17 روپے رہا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 40 لاکھ ٹن گندم کی کمی ہوئی ہے، صوبوں کو 2.7ملین میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے جب کہ باقی گندم کی کمی کا تعلق مرغیوں کی فیڈ ، جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک سے متعلق ہے۔
موجودہ مالی سال میں 3ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی، حکام کا کہنا ہے اگر گندم کی اسمگلنگ اورذخیرہ اندوزی کو نہ روکا گیا تو نومبراور دسمبرمیں آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
حکام نے بتایا کہ کچھ بااثر تاجروں اورکچھ آٹا مل مالکان نے 2 ملین میٹرک ٹن گندم ذخیرہ کرلی ہے، حکام نے مزید بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر، کشمور، صادق آباد، ڈیرہ غازی خان ، لورالائی اور جعفر آباد میں گندم کےغیر قانونی ذخائر کی نشاندہی کی ہے۔
حکام نے مزید بتایا ہے کہ بہاولپورمیں ایک حکومتی جماعت کے ممبرپارلیمان کیخلاف بھی گندم افغانستان سمگل کرنے کا الزام ہے، ایک پنجاب کے فوڈ انسپکٹر نے جب انکی تحقیقات شروع کی اور معاملہ پارلیمنٹ کی کمیٹی تک پہنچا تو ایم این اے نے فوڈ انسپکٹر کیخلاف کاروائی کروا کے نوکری سے برخاست کروانے کی کوشش کی، کچھ تاجروں نے پہلے پنجاب سے خیبرپختونخوا اور پھر وہاں سے افغانستان اسمگلنگ، یا پھر آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کر کے آٹے کی فروخت کے ذریعے 25 ارب روپے کا اضافی منافع کمایا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023-24کے دوران ملک کی 24 کروڑ آبادی کیلئے 31.5ملین میٹرک ٹن گندم درکار ہو گی، رواں سال کے دوران گندم کی پیداوار 27.8ملین میٹرک ٹن تھی، اس طرح ملک کو 4ملین میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے۔
فلورملز مالکان کا موقف ہے کہ حکومت کی جانب سے مزید گندم فراہم نہ کی گئی تو آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، انکا مزید یہ بھی بتانا ہے کہ اٹے کی قیمت میں اضافے کی وجہ ٹرانسپورٹ، ٹیکس میں اضافہ اورگندم کی قیمت بڑھنا ہے۔
گورنمنٹ تقریبا ڈھائی ارب ڈالرز کی تیس لاکھ ٹن کندم برآمد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
حکام کے مطابق گندم کی کمی، اور افغانستان سملنگ کی بھی گندم کی قیمت کے اضافے میں ایک وجہ ہے، نئی خوراک پالیسی میں گندم کی کاشت پرزیادہ توجہ دی جاری رہی ہے۔