چیف جسٹس کے ون مین شو کے اختیار پر نظر ثانی لازمی ہے، سپریم کورٹ کے ججز کا اختلافی فیصلہ

Supreme Court

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے ججز نے کہا ہے کہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔

کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو بدل سکتا ہے، چیف جسٹس

یہ بات پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تفصیلی اختلافی فیصلے میں کہی گئی ہے جو 28 صفحات پر مشتمل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ اختلافی فیصلے میں درج ہے کہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، پنجاب اورخیبرپختونخوامیں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے۔

اختلافی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ہائی کورٹ زیر التوا درخواستوں پرتین روز میں فیصلہ کرے، از خود نوٹس کیخلاف 4 اور3 کا فیصلہ دیا گیا، سپریم کورٹ نے 4 اور3 کے تناسب سے درخواستیں مسترد کیں، پانامہ کیس میں بھی دوسرے بینچ نے فیصلہ بدل دیا تھا۔

سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کی اپیل، چیف جسٹس کو امیر جماعت اسلامی کا خط

فیصلے میں درج ہے کہ چیف جسٹس اپنی مرضی کا بینچ تشکیل نہیں دے سکتے، بینچ کی تشکیل اور از خود نوٹس کے رولز میں ترمیم کی جائے، ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بینچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں، 2 معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بینچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پرچھوڑا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ اختلافی فیصلے میں درج ہے کہ بینچ سے نکالے جانے والے دونوں ججز کا فیصلہ اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے، چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس لینے، اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں۔

سپریم کورٹ فیصلے کا مذاق اڑانے پر شہباز شریف کو گھر بھیجا جا سکتا ہے، فواد چودھری

اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان اختیارات کی وجہ سے سپریم کورٹ پرتنقیداوراس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے، اب صحیح وقت ہے ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے, عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کرتی ہے، عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے.

فیصلے میں تحریر ہے کہ  یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائی کورٹس میں کیس زیرالتوا ہونے کے باوجود از خود نوٹس لیا گیا، از خود نوٹس کا دائرہ اختیار غیر معمولی، صوابدیدی اور بہت خاص نوعیت کا ہے، آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار بنیادی حقوق کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اختلافی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے از خود نوٹس لینے کا اختیار ریگولیٹ ہونا چاہیے،عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے چیف جسٹس کے ون مین شو کے اختیار پر نظر ثانی لازمی ہے، چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری سپریم کورٹ کو صرف ایک چیف جسٹس کے فیصلے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی منطق نہیں مانے گی، اٹارنی جنرل نے عزت والا فیصلہ کیا، اعتزاز احسن

جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ اختلافی فیصلے میں درج ہے کہ ون مین شو نہ صرف فرسودہ بلکہ ایک برائی کی مانند بھی ہے، چیف جسٹس کا ون مین شو جدید جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔


متعلقہ خبریں