سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک پر قائم مسجد سمیت تمام تجاوزات ہٹانے کا حکم دے دیا.
سپريم کورٹ کراچی رجسٹری میں کڈنی ہل پارک تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس کی ڈی سی کراچی شرقی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پارک کی اراضی پر مسجد کیسے بن گئی ؟ کیا آپ صرف مراعات اور تنخواہ لینے کیلئے ہیں ؟ بس ایک مراسلہ اِدھر لکھ دیا ، ایک مراسلہ اُدھر لکھ دیا.
دوران سماعت درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ کڈنی ہل پارک کی اراضی64 ایکڑ ہے، اور مسجد بھی اس پر بنی ہے۔جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیئے مسجد کی لیز غلط ہے، اور کوئی بھی عبادت گاہ غیر قانونی زمین پر نہیں بن سکتی۔
وکیل نے بتایا کہ1991 میں نیلامی ہوئی اور 1994 میں مسجد بنائی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے پولیس اسٹیشن کی جگہ بھی لکھی ہے ۔ اوریجنل ڈیمارکیشن دکھائیں۔ ادارے اپنے وقت پر کام نہیں کرتے ۔ اسی لئے یہ مسائل آرہے ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جو نقشہ ہے۔ اس پر نہ مسجد ہے، نہ مزار ہے ،نہ گھر اور نہ ہی پولیس اسٹیشن ہے۔ عدالت نے کہا ہم نے اسسٹنٹ کمشنر سے کہا تھا کہ وہ رپورٹ دے۔ اسسٹنٹ کمشنر عاصمہ بتول کو مخاطف کرتے ہو ئے کہا کمشنر صاحب یہ کیا ہو رہا ہے ،آپ کے ایریا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر نےبتایا کہ سر مجھے جو آرڈر دیا گیا تھا۔ وہ جھگیاں وغیرہ ہٹا دی ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا ۔ کیا وہاں اب بھی مزار اور قبرستان ہے۔وکیل کا کہنا تھا آپ دوسروں پریقین نہ کریں خود دیکھیں-اس پر چیف جسٹس نے کہا ہم دیکھ رہے ۔آپ اپنی بات کریں۔ عدالت نے کڈنی ہل پارک میں قائم مسجد سمیت تمام تجاوزات ہٹانے کا حکم دےدیا۔