میانمار کے مختلف شہروں میں اس ماہ کے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ آٹھویں روز بھی جاری رہا۔
میانمار کے دارالحکومت ینگون میں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد فوجی بغاوت کے نتیجے میں آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شریک رہی وہی پر “اسپائیڈی ہیٹو” کے نام سے مشہور “اسپائیڈر مین” نے بھی شرکت کی۔
28 سالہ اسپائیڈو جو حال ہی میں سنگاپور سے میانمار کاروبار کرنے کی غرض سے لوٹا تھا کا کہنا ہے کہ یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت نے ان کے تمام منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔ فوجی بغاوت میرے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔
مزید پڑھیں:میانمار: فوجی بغاوت کے خلاف امریکہ نے نئی پابندیاں عائد کردیں
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بولی ووڈ کے کردار اسپائیڈر مین کا ڈریس اس لیے پہنا ہوا ہے تاکہ فوجی انہیں پہچان نہ سکیں کیونکہ ان کے گھر والوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے مظاہروں میں ان کی شرکت پورے خاندان کے لیے مسلہ پیدا کرسکتا ہے۔
اسپائیڈو کا کہنا ہے کہ پچھلے دہائیوں والے مظاہروں کے برعکس وہ اس دفعہ مختلف انداز میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم نظر بھی آرہے ہیں اور نظر نہیں بھی آرہے ہیں کیونکہ ہم نے ماسک پہنا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے خیالات اور تخلیقی صلاحیت اون کے حربوں سے کہیں زیادہ آگے ہے، وہ ہمیں شکست نہیں دے سکتے اور ہم جیتیں گے۔
خیال رہے کہ میانمار کے دارالحکومت ینگوں سمیت دوسرے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد آنگ سانگ سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد لگنے والے کرفیو کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے پچھلے آٹھ دن سے سڑکوں پر ہیں۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتی رہتی ہے۔ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کرتی رہتی ہے۔
یکم فروری کی فوجی بغاوت اور سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی نظر بندی کے بعد میانمار میں ایک عشرے کے دوران پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے سول نافرمانی کردی ہے، جس کے سبب اسپتال، تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر میں کام شدید متاثر ہورہا ہے۔
میانمار کی فوج نے 2011 میں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور 2015 کے عام انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ تاہم اس عشرے میں میانمار کی فوج منتخب حکومت کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی ہے۔
یکم فروری کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں میانمار کی منتخب حکومت کا ایک بار پھر تختہ الٹ دیا گیا ہے اور نوبیل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا ہے اور اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ انہیں کہاں قید کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کر لی تھیں تاہم فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
فوج نے کہا ہے کہ وہ ایک سال کے لیے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر رہی ہے اور اس حوالے سے فوج نے کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو ملکی اختیارات سونپ دیے گئے ہیں