کراچی کی بیٹی کا کارنامہ: ماحول دوست اور کھانے والا پلاسٹک تیار کر لیا

کراچی کی بیٹی کا کارنامہ: ماحول دوست اور کھانے والا پلاسٹک تیار کر لیا

اسلام آباد: آج جب دنیا 300 ملین ٹن سالانہ پلاسٹک کے اضافے سے پریشان ہے تو شہر قائد کے مکینوں کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ وہ جو روزآنہ 15 ہزار ٹن کچرا پیدا کررہے ہیں جس میں 50 فیصد سے زائد پلاسٹک ہوتا ہے، اسے کیسے ٹھکانے لگائیں؟ کیونکہ جلانے کی صورت میں زہریلی گیس پیدا ہوتی ہے اور نالوں میں بہانے سے سمندری حیات کی تباہی کا سبب بنتا ہے تو ایسی پریشان کن صورتحال میں ان کے لیے یہ خبر یقیناً خوش آئند ہوگی کہ کراچی کی ایک بیٹی نے ایسی پلاسٹک ایجاد کرلی ہے جو ماحول دوست ہونے کی وجہ سے نہ صرف ایک مخصوص مدت کے بعد ازخود ختم ہوجاتی ہے بلکہ اسے کھایا بھی جا سکتا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ماحول دوست پلاسٹک (بائیو ڈیگریڈیبل) بنانے کا خیال  جامعہ کراچی (کراچی یونیورسٹی) کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انجم نواب کو آیا تھا۔


ڈاکٹر انجم نواب ںے اس ضمن میں برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بائیو ڈیگریڈیبل اور ایڈیبل (جسے کھایا بھی جا سکے) کی اصطلاح آج کل ایک ہی معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی چیز بائیو ڈیگریڈیبل ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ استعمال کے بعد جب اسے پھینک دیا جائے گا تو فضا میں موجود جراثیم اسے ختم کر دیں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر جراثیم کسی چیز کو ختم کر سکتے ہیں تو پھر اسے انسانوں کے کھانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کا تیار کردہ پلاسٹک کیونکہ قدرتی اجناس سے کشید کیے جانے والے اجزا سے تیار کیا گیا ہے لہذا اِسے کھایا بھی جا سکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے پلاسٹک کو نیم گرم پانی میں گھول کر بھی تلف کیا جا سکتا ہے۔

ماحول دوست پلاسٹک کے برعکس پیٹروکیمیکلز کے ذریعے تیار کیے جانے والے پلاسٹک کو فضا میں موجود جراثیم ختم نہیں کر سکتے ہیں بلکہ اس سے تیار کی جانے والی اشیا سیکنڑوں سال تک موجود رہ کر آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔

ڈاکٹر انجم نواب نے مطابق انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ آم کی گٹھلی سے بائیو ڈیگریڈیبل اور ایڈیبل پلاسٹک تیار کرنے کا تجربہ کیا جائے؟

جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ پروفیسر کے مطابق پلاسٹک کی تیاری میں آم کی گٹھلی کھول کر اُس میں سے بیج نکالا جاتا ہے اور پھر اس بیج سے اسٹارچ یا نشاستہ کشید کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس اسٹارچ میں مختلف اجزا شامل کر کے پلاسٹک کی شکل دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر انجم نے دعویٰ کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ایڈیبل بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک تیار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن جامعہ کراچی میں تیار کیا جانے والا پلاسٹک اس لیے مختلف ہے کہ یہ آم کی گٹھلی سے تیار کیا جا رہا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس پلاسٹک کے شاپنگ بیگز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا میں استعمال ہونے والی روایتی پیکجنگ کو اِس پلاسٹک سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے مصالحہ جات کی موجودہ المونیم کی پیکنگ کو ماحول دوست پلاسٹک سے تبدیل کر کے دیکھا تو ان کی شیلف لائف میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا۔ ان کے مطابق ان کے کام کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔

پاکستانی نثراد برطانوی شہری نے کرپٹو کرنسی کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا دعویٰ کردیا

ڈاکٹر انجم نواب کے مطابق انہوں نے ملکی و غیرملکی کانفرنسوں اور سیمیناز میں اس ریسرچ پر مقالے پیش کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے مقالات عالمی معیار کے ریسرچ جریدوں انٹرنیشنل جرنل آف بائیولوجیکل میکرو مالیکیولز، اسٹارچ اور جرنل آف فوڈ پراسیسنگ اینڈ پریزرویشن میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق ڈاکٹرانجم نواب کہتی ہیں کہ ان کی تحقیق فی الوقت تجرباتی سطح پر ہے اور اب اس کو آزمائشی سطح پر چلانے کے لیے فزیبلٹی بنا رہے ہیں جس کے بعد بڑے پیمانے پر تیار کرکے عوام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبے نے بھی اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جس کی وجہ سے متعدد پیشکشیں بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔


متعلقہ خبریں