جج ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا

Supreme Court

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 20 اگست کومحفوظ کیا گیا فیصلہ کل صبح 9 بج کر30 منٹ پرسنائے گا۔
یاد رہے دو روز قبل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں  3 رکنی بینچ نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انورمنصور خان سے استفسار کیا کہ ارشد ملک کی خدمات لاہورہائیکورٹ کوواپس کیوں نہیں کی جا رہیں ؟

انہوں نے کہا کہ کیا جج ایسا ہوتا ہے جو سزا دینے کےلیے مجرم کے پاس جائے؟ جج کے اس کردار سے ججز کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لئے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کرایا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مبینہ شخص سامنے نہیں آیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے اس وقت کی حکومت نے پاناما فیصلے کے بعد ارشد ملک کی تعیناتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ سے ابہام پیدا ہوا ہے ، ویڈیوزغالباً 2 تھیں قابلِ اعتراض ویڈیو وہ تھی جس سے جج کو بلیک میل کیا گیا اور دوسری ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی، لگتا ہے کسی نے ویڈیو کے ساتھ کھیلا ہے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر جنرل نے بتایا کہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کرایا گیا ہے جبکہ نئی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوسکا۔

اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ’’ پورے پاکستان کے پاس ویڈیو ہے، صرف ایف آئی اے کے پاس نہیں، جس ویڈیو کا سوال ہو رہا ہےاس کا فرانزک کیوں نہیں ہوا؟‘‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ  ویڈیو یوٹیوب سے لی گئی ہے اس لیے فرانزک نہیں ہوسکتا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ پہلی وڈیو اصل ہے، دیکھنا ہوگا ویڈیو کی کاپی اوریوٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے یا نہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جنہوں نے کہانی بنائی وہ لاتعلق ہوگئے اور لاتعلقی کا اظہارایف آئی اے کےلیے مشکلات کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ جج خود مان رہا ہے کہ ان کے اِس (شریف) خاندان سے تعلقات تھے، وفاقی حکومت نے ارشد ملک کو ابھی تک اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے؟ انہیں لاہور نہ بھجوا کرتحفظ دیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت تفتیش کی مانیٹرنگ نہیں کرسکتی، جج کے کردار کی حد تک عدالت معاملہ دیکھ سکتی ہے۔

اس موقع پر وکیل اکرام چوہدری نے استدعا کی کہ عدالت اس  معاملے میں کمیشن بنائے یا تحقیقات کومانیٹر کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت مانیٹرنگ کرے تو اعتراض کیا جاتا ہے، مانیٹرنگ نہ کریں تو کہا جاتا ہے مانیٹرنگ کریں۔

 


متعلقہ خبریں