اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں پیسہ واپس کردیں تو فوجداری مقدمات ختم ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے کی سماعت کی۔ عبدالغنی مجید کے بیٹے نمر مجید سمیت دیگر فریقین عدالت میں ہیش ہوئے۔
بینچ کے سربراہ نے نمر مجید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے گھر کے سامنے جو گھر ہے ہمیں اس کا بھی پتا ہے، اس گھر کے اندر جو گڑھا کھودا گیا ہے اس کا بھی پتا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کراچی میں آپ کو بیوی اور والدہ کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا اور آج بھی انہی کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں، لیکن ہفتہ آخری دن ہوگا اس کے بعد موقع نہیں ملے گا، مزید مہلت نہیں دے سکتے۔
سپریم کورٹ کے سربراہ نے نمر مجید کی بیگم کو روسٹرم پر بلا کر کیا آپ کو پہلے بھی ہم نے بلایا تھا اور بہت عزت دی تھی، آپ میری بیٹیوں کی طرح ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ تعاون کریں۔
بینچ کے سربراہ نے نمر مجید کی اہلیہ سے مکالمے میں کہا کہ بینکوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کر لیں، اگر معاملات سیٹل نہیں کرنے تو ضمانت پر رہنے کی کیا ضرورت ہے، عدالت ایک حد سے زیادہ نہیں جا سکتی۔
اومنی گروپ کے وکیل نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر نمر مجید نے بینکوں کیساتھ سیٹلمنٹ کی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس لیے بنکوں کو بلانا چاہتی ہے
وکیل کا کہنا تھا کہ اسٹیٹمنٹ پر اعتراض صرف نیشنل بنک کو ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ پیسہ بینکوں کا نہیں پبلک کا ہے، بینکوں کے نمائندوں سے معاملہ سمجھ کر حکم دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے بینک اکھٹے ہو جائیں، عدالت اپنا نمائندہ مقرر کرے گی۔
سپریم کورٹ کے سربراہ نے حکم دیا کہ عبدالغنی مجید ٹیلی فون پر ہدایات دیتا رہتا ہے، انہیں اڈیالہ لیکر آئیں، ہمارے سامنے رہے تو عبد الغنی مجید ٹھیک رہے گا۔
عدالت آئندہ سماعت پر تمام بینکوں کے نمائندوں اور عبدالغنی مجید کو طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 17 نومبر تک ملتوی کردی ہے۔