ہوسکتا ہے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے،وزیراعظم


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے. وزیراعظم میڈیا کی آزادی پریقین رکھتے ہیں۔ حکومت تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

یہ بات انہوں نے پاکستان کے اہم میڈیا اداروں کے وفود سے ملاقات کرتے ہوئے کہی۔ وفود میں پاکستان بڑاڈ کاسٹرزایسوسی ایشن ، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے وفد شامل ہیں۔ ملاقات میں میڈیا کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کی مثبت تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

میڈیا انڈسٹری کو درپیش مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ توقع ہے بہت جلد ان مسائل پر قابوپالیں گے اور مستقبل میں حالات بہتر ہوں گے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں عام آدمی کی مشکلات کو کم کیا جائے اور عوام اچھی زندگی گزار سکے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق 27 ستمبر سے 4 اکتوبر تک کے درمیان انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ(آئی ایم ایف) کے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف نے افراط زر آئندہ سال جون تک 14 فیصد تک جانے کی پیشن گوئی کی ہے۔

ذرائع کے مطابق اگرصورتحال یہاں تک پہنچی تو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے مطابق شرح سود 15 فیصد کی سطح تک پہنچ جائے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی اسٹیبلائزیشن پروگرام کے باعث آئی ایم ایف نے سال 19-2018 میں معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے کم بتائی ہے۔

آئی ایم ایف اپنے اعلامیہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار کم رہے گی تاہم دیگر تفصیلی تخمینہ آئی ایم ایف نے صرف وزارت خزانہ کو دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق افراط زر اور جی ڈی پی کا تذکرہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والی اختتامی ملاقات میں بھی ہوا ہے۔

میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 14 فیصد افراط زر کا تخمینہ آئی ایم ایف نے چار وجوہات کی بنا پر لگایا ہے۔ اول، گیس کی قیمتوں میں اضافہ جوکہ تقریبا 143 فیصد تک کیا گیا ہے۔ دوئم، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی جس کے اثرات تقریبا تمام اشیا کی قیمتوں پر پڑیں گے۔ سوئم، پاور کے ٹیرف کا بڑھنا اورچہارم، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں متوقع اضافہ  ہیں۔

رپورٹ کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اورعالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ غیر متوقع نہیں ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ افراط زر میں 14 فیصد اضافہ اور تین فیصد سے کم ترقی کی شرح کو حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران پہلے پاکستان تحریک انصاف آئی ایم ایف کے نام پر خود کشی کی بات کرتی تھی لیکن اب ان کو بھی اسی کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔

میڈیا چینل کے ایک پروگرام میں صحافی ایک سوال پر وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا کہ الحمد اللہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اورفوجی حکومتوں نے بھی آئی ایم ایف سے رابطے کیے۔

وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ میرے بارے میں سینیٹر میاں رضا ربانی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ میں وہ تقریر ڈھونڈ رہا ہوں جس میں، میں نے کہا ہو کہ آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بیل آؤٹ پیکیج لینا ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ پہلے کوئی بات کی ہو لیکن اس الیکشن میں، میں نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد گزشتہ شب ہی وطن واپس پہنچنے والے وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ ہے۔


متعلقہ خبریں