اسلام آباد: چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بننے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔ سرکاری ملازمین کے چھٹی لے کر باہر جانے اور ملازمت کرنے کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے۔
پیر کے روز سپریم کورٹ میں سرکاری افسران اور ججز کی دہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دہری شہریت رکھنے والوں پر کچھ ممالک میں سرکاری ملازمت پر بھی پابندی عائد ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں دہری شہریت یافتہ شخص کے سرکاری ملازمت پر پابندی عائد ہے۔
عدالتی معاون نے مؤقف اختیار کیا کہ سال 2002 سے (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) نادرا نے کسی دہری شہریت یافتہ شخص کی شہریت منسوخ نہیں کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ افواج پاکستان نے تحریری جواب میں کہا ہے کہ دہری شہریت کا حامل شخص فوج میں بھرتی نہیں ہو سکتا کیوں کہ دہری شہریت سے وفاداری تقسیم ہوتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈاکٹرز اور استاد کی دہری شہریت پر کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے، گردے کے ماہر ڈاکٹر اور ٹیچرز کی دوہری شہریت ہو تو اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ پاکستان کو دھوکہ دے کر باہر گئے اور اپنی جائیدادیں بنائی ہیں اُن کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کچھ سرکاری افسران پاکستان سے ایک سال کی چھٹی لے کر بیرون ملک گئے اور پھر وہاں ملازمت شروع کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ڈی آئی جی ڈوگر صاحب تھے انہوں نے باہر جا کر کینیڈین خاتون سے شادی کر لی۔ دنیا کے ساتھ مالی معاملات پر بات کرنے والے فنانس سیکرٹری کو منقسم وفاداری کی اجازت نہیں دے سکتے۔
عدالتی معاون نے مؤقف اختیار کیا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیئرمین اوگرا کیس میں طریقہ کار واضع کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس جواد کا ویو درست ہے لیکن قانون سازی کے بغیر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم فیصلہ محفوظ کرتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نہ کوئی پالیسی دے رہے ہیں نہ فیصلہ دے رہے ہیں اور نہ ہی قانون سازی کر رہے ہیں تاہم ہم فیصلے میں سفارشات دیں گے۔