اسلام آباد: شہر اقتدار کے اسپتالوں کا طبی فضلہ شہریوں کے لیے موت کا پیغام بن گیا۔ زہریلے مواد کو تلف کرنے کے بجائے ذخیرہ کرنے سے شہریوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئی ہیں لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں سے خارج ہونے والا جراثیم زدہ فضلہ باہر کچرے کے ڈھیر سے ملنے کا انکشاف ہوا ہے اور یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسے فروخت کرنے کے لیے کباڑخانے میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
کچرا چننے والے بچوں نے ہم نیوز کو بتایا کہ وہ جب ادھر آتے ہیں تو انہیں انجیکشن، ڈرپس، سرنجیں اور اس طرح کی چیزیں ملتی ہیں اور وہ اسے بیچ دیتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کچرے میں یورین بیگ، خون کی بوتلیں اور سرنجیں بھی شامل ہوتی ہیں جنہیں ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں۔
ڈاکٹر فرحانہ ظریف ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پمز نے بتایا کہ تین چار مرتبہ انسیلیٹر دوبارہ لگوانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ ہمارے اپنے انسیلیٹر آ جائیں گے تاہم اس وقت مورگاہ میں انسیلیٹر پلانٹ لگا ہوا ہے اور سارا جراثیم شدہ فضلہ ادھر جاتا ہے اور اسے جلا دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ میڈیکل ویسٹ کا باقاعدہ تلف نہ ہونا نہ صرف ہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسی موذی بیماریوں کا باعث بنتا ہے بلکہ نشے کے عادی افراد بھی اسے استعمال کرسکتے ہیں۔
بات یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس فضلے کو کارخانوں میں دوبارہ ایک خاص عمل سے گزار کر مختلف گھریلو استعمال کی اشیا بنانے کا انکشاف بھی کئی مرتبہ کیا جا چکا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔