العزیزیہ ریفرنس: خواجہ حارث نیب پراسیکیوٹر پر برہم

العزیزیہ میں حتمی دلائل دوسرے روز بھی جاری | urduhumnews.wpengine.com

فائل فوٹو


اسلام آباد: احتساب عدالت نمبردو کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزکی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔ وکیل صفائی خواجہ حارث کل بھی  استعاثہ کے اہم گواہ واجد ضیاء پر جرح جاری رکھیں گے۔

جمعراے کے روز بھی خواجہ حارث استغاثہ کے مرکزی گواہ اور پاناما کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح جاری رکھی۔ دوران جرح خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے پوچھا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان میں کمپنیز آرڈیننس 1984 کو 2017 کمپنیزایکٹ میں ریپلیس کیا کیا گیا۔ اس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ان کے علم میں نہیں ہے۔ جب خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان میں پارٹنرشپ ایکٹ 1969 چل رہا ہے تو واجد ضیاء نے جواب دیا جی جانتا ہوں۔

انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے علم میں ہے پاکستان میں کمپنیز ایکٹ کمپنی کو اور پاٹنر شپ ایکٹ پارٹنر شپ کو ڈیل کرتا ہے؟ ،واجد ضیا نے جواب دیا کہ وہ ایکسپرٹ نہیں ہیں۔

جب پراسیکیوٹرعمران شفیق نے لقمہ دیا کہ پارٹنرشپ ایکٹ 1969 نہیں 1932 ہے اسے ٹھیک کر لیں، تو خواجہ حارث نے اپنے معاون وکیل کو جھاڑ پلا دی اور کہا کہ وہ  آپ کو پاگل بنا رہے ہیں اور آپ پاگل بن رہے۔

دوران سماعت بجلی چلی گئی جس کے بعد عدالتی کارروائی کے دوران روشنی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یو پی ایس استعمال کیا جاتا رہا۔

جمعرات کے روز دوران جرح خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ نیب پراسیکیوٹرز کمرہ عدالت میں باتوں میں مصروف تھے کہ خواجہ حارث نے دونوں کو چپ رہنے کا کہتے ہوئے کہا کہ جب میں جرح کر رہا ہوں تو آپ دونوں کیوں بات کر رہے ہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ ہم آپس میں بات کر رہے ہیں۔ 

خواجہ حارث نے طنزاً کہا کہ آپ انڈے اور ڈبل روٹی کی قیمتیوں پر یہاں تبادلہ خیال نہ کریں اور اگر آپ نے بات کرنی ہے تو پیچھے جا کر بات کریں۔ میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں۔ 

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے عدالت کہے تو میں نہیں پوچھوں گا، آپ مجھے ڈکٹیٹ مت کریں۔ جس پر عدالت نے بھی نیب پراسیکیوٹر کو دوران جرح بات نہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ 

خواجہ حارث نے  واجد ضیاء سے استفسار کیا کہ کیا جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) نے آلڈر آڈٹ بیورو کے کسی آفیشل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی؟ 

واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا، آلڈر آڈٹ رپورٹ ان فنانشل اسٹیٹمنٹ کی بنیاد پر تیار کی گئی جن کا آڈٹ آلڈر آڈٹ بیورو نے خود نہیں کیا تھا، حسین نواز سے متعلق آلڈر آڈٹ رپورٹ مالی سال 2010 سے 2014 تک کی ہے۔ 

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ( ایچ ایم ای ) کب آپریشنل ہوئی تھی ؟ جس پر واجد ضیاء کا کہنا تھا وہ ریکارڈ دیکھ کر ہی جواب دے سکیں گے۔ جواب دینے کیلئے سی ایم اے اور حسین نواز کا بیان دیکھنا پڑے گا۔

واجد ضیاء نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی متفرق درخواست کے مطابق ایچ ایم ای 2006 کے آغاز میں قائم ہوئی جب کہ ایم ایل اے لکھنے سے پہلے ہمیں معلوم تھا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ایچ ایم ای 2010 سے 2015 تک کے سالانہ اکاؤنٹس پر مبنی ہے۔ 

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے ایم ایل اے میں ایچ ایم ای کے آڈیٹڈ اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگنا ضروری نہیں سمجھا تھا جب کہ سعودی حکام کو 31 مئی 2017 کو صرف ایک ایم ایل اے لکھا گیا تھا جس کا سعودی حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا اور جے آئی ٹی نے تحقیقات کے سلسلے میں اپنا کوئی نمائندہ سعودی عرب نہیں بھیجا۔ 

واجد ضیاء نے کہا کہ میں نے دو سال تک ایف آئی اے اکنامک کرائم ونگ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا ہے تاہم براہ راست کسی کمرشل کیس کی تفتیش نہیں کی اور 

کم ہی ایسا ہوتا کہ کسی کیس کی فائل براہ راست میرے پاس آئی ہو۔ 

بدھ کے روز ہونے والی سماعت میں سابق وزیراعظم کے وکیل نےعدالت میں اپنے اعتراض ریکارڈ کروائے تھے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر نے جوابی اعتراض میں مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ خواجہ حارث نے اعتراض کے نام پرسماعت کی پوری کہانی بیان کی ہے، تخیل پر مبنی کوئی کہانی قانونی اعتراض کی صورت میں قبول نہیں کی جا سکتی۔

علاوہ ازیں سابق وزیراعظم کی جانب سے عدالت میں ایک دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔

 


متعلقہ خبریں