اسلام آباد، چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے ضابطہ اخلاق (Code of Conduct) میں نمایاں ترامیم کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جب کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر بھی شریک ہوئے۔
جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق، اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت دائر 67 شکایات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، جن میں سے 65 شکایات نمٹا دی گئیں، ایک شکایت مؤخر اور ایک کو مزید کارروائی کے لیے منظور کر لیا گیا۔
جلاس میں ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترامیم کی تجاویز پر غور کیا گیا، جو اکثریت سے منظور کر لی گئیں۔ کونسل نے ہدایت کی کہ منظور شدہ ترامیم کو فوری طور پرسرکاری گزٹ میں شائع کیا جائے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
نئے ضابطہ اخلاق کے تحت ججز کو میڈیا سے براہ راست گفتگو کرنے یا کسی ایسے سوال کا جواب دینے سے روک دیا گیا ہے جس سے تنازع کھڑا ہو سکتا ہو اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ اگر کسی جج پرکوئی الزام عائد ہوتا ہے تو وہ اس کا جواب تحریری طور پر ادارہ جاتی ردعمل کے لیے قائم کمیٹی کو بھیجیں گے۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ضابطہ اخلاق میں ترمیم کے بعد ججز کو میڈیا پر اپنے خلاف الزامات کا جواب دینے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم اب رول نمبر 5 میں دوبارہ ترمیم کرکے ججز کو اس سے پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ میڈیا پر کوئی ذاتی وضاحت پیش نہ کریں۔
ترمیم شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق، ججز کو ہر معاملے میں مکمل غیر جانب داری اختیار کرنی ہوگی اور ایسے کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرنی ہوگی جس میں ان کا ذاتی مفاد یا تعلق ہو۔
ججز کو کاروباری یا مالی تعلقات سے اجتناب، سیاسی یا عوامی تنازعات میں عدم شمولیت اور اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق، ججز کسی بھی غیر معمولی مالی فائدے یا تحفے کو قبول نہیں کریں گے، اور عدالتی فیصلوں میں تاخیر سے گریز کریں گے۔ ضابطہ اخلاق میں ججز کو غیر ضروری سماجی، ثقافتی یا سیاسی تقریبات میں شرکت سے بھی منع کیا گیا ہے۔
ججزغیرملکی اداروں سے ذاتی دعوتیں قبول نہیں کریں گے اور کسی وکیل یا فریق کی جانب سے عشائیے یا تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔
سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے 8 ریگولر بنچوں کی سماعتیں، خصوصی آئینی بنچ 26ویں ترمیم کیس سنے گا
کونسل کے مطابق نئے ضابطہ اخلاق کا مقصد عدلیہ کے اندر احتساب کے نظام کو مزید مؤثر بنانا اور عوام کے عدالتی نظام پر اعتماد کو مستحکم کرنا ہے۔

